آج موضوع کے اعتبار سے حساسیت اس بات کی متقاضی ہو گی کہ ایک ایک لفظ انتہائی احتیاط سے لکھا اور پڑھا جائے۔ کالم کے شروع میں ایک اقتباس میرے کالم ‘‘امن معاہدہ ‘‘سے جو مورخہ27 مارچ 2024ء کو نوائے وقت میں شائع ہوا جسکی سطور کچھ اسطرح ہیں۔ ‘‘کس سے یہ بات ڈھکی چھپی ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاک ایران تیل و گیس لائن کی مخالفت صرف ایران کے تیل کی فراہمی روکنا نہیں، بلکہ اس عمل کو روکنا مقصود ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو طاقت مل سکتی ہو۔ اسی طرح جب امریکہ بہادر کہتا ہے کہ اسے سی پیک منصوبے پر تحفظات ہیں تو گہرائی سے دیکھیں کہ اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان صرف راہداری کی مد میں کتنے اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے اور اسکی معیشت کن بلندیوں پر پہنچ سکتی ہے لیکن یہ بات سامراجی نظام کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ممکن ہو جاتا ہے تو انکا پورا نظام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ مگر ہمارے دانش کدہ کے مکینوں کو اس بات سے کیا غرض، انکی سوچوں کا محور تو اڈایالہ جیل کی دیواروں اور اسکے اردگرد ہونے والی نقل و حمل تک ہی محدود ہے’’۔
حالات کی پیچیدگی کا ادراک کرتے یہاں راقم مزید لکھتا ہے کہ ‘‘ان دونوں معاملات میں کسی پیش رفت کو روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر کس طرح سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے۔ ہمیں اس سے کیا غرض کہ اس خطہ میں ایک اور پراکسی وار کی کیا پلاننگ ہو چکی۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کس طرح بیرونی دہشت گردوں کو پاکستانی افواج کے خلاف صف آرا اور استعمال کیا جا رہا ہے کہ فوجی قیادت پر دباؤ اس حد تک بڑھایا جائے کہ انکے پاس اس گھناؤنے عمل کے خلاف retaliate کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے اور انہیں ایک دفعہ پھر اس آگ میں دھکیل دیا جائے کہ جس کی راکھ کو ٹھنڈا کرنے میں مزید بیس سال لگ جائیں’’-
اس سباق آج جب ریاست کی طرف سے اس کی اپنی اور اس کے مکینوں کی حفاظت کیلئے ایک مربوط میکانزم کے تحت کسی کارروائی کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے تو ایک دم سیاسی اْفق پر ایک ایسی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے جس نے صاحب فکر طبقہ کو جسکا اپنا ایک مقام اور حیثیت ہے، یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر وہ ایسی کسی سازش کو وقت سے پہلے بھانپ سکتے ہیں تو یہاں کے دانش کدہ کے وہ مکیں جنھوں نے ایسے کسی اپریشن کے خلاف اپنی توپوں کے منہ کھول دئیے ہیں کیا وہ اس بات کا ادراک نہیں رکھتے یا پھر انکا کوئی اور ایجنڈہ ہے جسکے تحت وہ ‘‘عزم استحکام ‘‘کے مقابلے میں ‘‘عدم استحکام ‘‘ کا مشن لیکر نکل پڑے ہیں۔ راقم سمجھتا ہے کہ اس حساس معاملے پر کسی قسم کی قیاس آرائی یا تبصرے سے پہلے کچھ ایسے زمینی حقائق اور معروضی حالات اہل فکر، دانش اور نباض لوگوں کی توجہ چاہتے ہیں جن میں سر فہرست وہ قرار داد اور اسکی ٹائمنگ ہے جو امریکی ایوان نمائندگان نے 368 ووٹوں سے منظور کی ہے۔ دوئم دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اپریشن ‘‘عزم استحکام ‘‘ کی مخالفت میں کون کونسی سیاسی پارٹیوں نے آسمان سر پر اْٹھایا ہے اور اسکے پیچھے کیا محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں۔ سوئم معروضی حالات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اس اپریشن کے شروع ہونے کی خبروں کے ساتھ ہی ایک سیاسی پارٹی میں ایک مخصوص صوبہ سے تعلق رکھنے والے کچھ ممبران کے ایک علیحدہ بلاک کی خبریں خاصی گرم ہیں جو اس بات کا جائزہ لینے کی متقاضی ہیں کہ انکے اس عمل کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔ چہارم دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مجوزہ اپریشن ‘‘عزم استحکام’’ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پنجم ففتھ جنریشن وار کے ذریعے جس اہریشن کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے کیا اس سے ملتے جلتے ٹارگٹس کیلیئے پہلے کوئی ایسے اپریشن نہیں ہوئے، اگر کوئی ہوئے ہیں تو اس وقت کیا عوامی ردعمل تھا اور کیا انکے نتیجہ میں مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہو سکا اور سب سے آخر میں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس اپریشن کی شروعات کیلئے پراپر فورمز سے مشاورت بھی کی گئی ہے اور اپریشن کی روح کے متعلق مطلوبہ تشہیر اور روابط کا استعمال ہوا بھی ہے یا نہیں۔
جسطرح شروع میں عرض کر چکا ہوں کہ موضوع کی حساسیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسکے متعلق ایک ایک لفظ انتہائی احتیاط کے ساتھ لکھا اور پڑھا جائے وہیں پر یہ بھی ضروری ہے کہ اوپر جتنے بھی نکات اْٹھائے گئے ہیں ان پر سیرحاصل گفتگو کی جائے تاکہ ایک عام قاری جسکی آنکھوں پر اندھی عقیدت کی پٹی نہیں بندھی یا جنکے دل بْغض کی غلاضت سے پراگندہ نہیں ہوئے وہ یہ حقیقت جان سکیں کہ اصل گیم کیا ہے اور ہمارے ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے۔ جگہ کی بندش کی وجہ سے اختصار کا اختیار استعمال کرنے کے باوجود شائد یہ ممکن نہ ہو کہ ان تمام نکات کا اس ایک کالم میں احاطہ ہو سکے لہٰذا اگلے ایک دو کالم بھی اسی موضوع کی دسترس میں ہونگے۔
شروعات کرتے ہیں امریکہ کی اس قراداد HR 901 سے جو امریکی ایوان نمائندگان نے 26 جون کو اپنے ایک اجلاس میں پاس کی جسکی حمایت میں 368 ووٹ اور مخالفت میں 7 ووٹ آئے اور مزے کی بات کہ دونوں اطراف یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی تقریبا برابر تعداد جس میں ری پبلکن کے 187 اور ڈیموکریٹس کے 181 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیے جبکہ قرارداد کی مخالفت کرنے والے ساتوں کے ساتوں ممبران کا تعلق ری پپبلکن سے ہے۔قرارداد کے متن اور اسکے ممکنہ ہدف پر انشاء اللہ اگلے کالم میں بات ہو گی۔