تحریک انصاف کو توڑنے کی کوششیں

          تحریک انصاف گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے جسے نہ نگلا جا رہا ہے نہ اگلا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کو یہ غلط فہمی تھی کہ یہ ممی ڈیڈی کلاس کی جماعت ہے جب اقتدار سے باہر ہو گی تو نظر بھی نہیں آئے گی اور ہم حکومت ملتے ہی تحریک انصاف کو ایسا نکرے لگائیں گے کہ کوئی نام لینے والا نہیں ہو گا۔ لیکن آج تک پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاؤں نہیں ٹک پا رہے۔ پہلے 16 ماہ کی حکومت میں بدترین سیاسی عدم استحکام رہا۔ پھر 9ماہ کی نگران حکومت سے بھی کچھ نہ بن پایا اور تمام تر اقدامات کے باوجود نہ عوام مطمئن ہو سکے نہ ہی  حکومتیں اپنی ساکھ بہتر کر سکیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج بھی ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔ معاملات بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ الیکشن کی ساکھ آج تک مذاق بنی ہوئی ہے۔ دواڑھائی سال میں پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہو چکا اور بہتری کی کوئی راہ نہیں نکل پا رہی۔ انتخابات میں تمام تر پابندیوں کے باوجود تحریک انصاف کو جو پذیرائی ملی اس نے بہت سوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ تحریک انصاف کو ڈیمج کرنے کی تمام تر کوششیں رائیگاں جانے کے بعد بانی پی ٹی آئی کو ڈائیلاگ کی طرف گھیر گھار کر لانے کی سعی بھی لاحاصل رہی تو اب ایک کارگر وار کیا جا رہا ہے جس کے تحت تحریک انصاف کو تحریک انصاف سے متنفر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تقسیم کی شدنی چھوڑ دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کو کئی دھڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نامور لوگوں کو منظر پر نہ آنے دینے کی پالیسی کے پیش نظر نئی قیادت متعارف کروائی گئی۔ شیر افضل مروت میں ہوا بھری گئی، اسے متبادل کے طور پر تیار کیا گیا، اس سے ہیرو جیسے ایکٹ بھی کروائے گئے، اس کو جلسے جلوسوں کی اجازت دے کر کارگر ہتھیار بنانے کی کوشش کی گئی اور شیر افضل مروت نے کافی حد تک کامیابی کے ساتھ تحریک انصاف کے لوگوں کو پیچھے بھی لگا لیا لیکن بانی پی ٹی آئی کی شٹ اپ کال نے ساری ہوا نکال دی۔ اب نئی قیادت پرانے تجربہ کار لوگوں سے خائف ہے اور معاملہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی پر اٹکا ہوا ہے۔ کارکنوں کو جذباتی کیا جا رہا ہے کہ موجودہ قیادت جان بوجھ کر بانی پی ٹی آئی کو باہر نہیں نکلوانا چاہتی پرانے کارکن اور لیڈر جو حالات کے باعث منظر نامے سے غائب تھے اب میدان میں آچکے ہیں۔ وہ اپنا پرانا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ نئی قیادت خوفزدہ ہے کہ اگر یہ لوگ متحرک ہو گئے تو ان کی اہمیت کم ہو جائے گی تحریک انصاف کا ورکر جو انتخابی نتائج سے ناخوش تھا اب مایوسی کا شکار ہو رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ ساری تحریک انصاف صرف بانی پی ٹی آئی کی قیادت پر متفق ہے لیکن منظر نامے پر موجود کسی رہنما کی گرفت اتنی مضبوط نہیں کہ وہ ساری جماعت کو لے کر چل سکے۔ جماعت کے اندر مختلف سوچیں پنپ رہی ہیں۔ کچھ دھڑے چاہتے ہیں کہ بانی کی رہائی کے لیے احتجاج کیا جائے کچھ دھڑے چاہتے ہیں کہ شدید گرمی اور حبس کے موسم میں کارکنوں کو کسی نئی مصیبت میں نہ ڈالا جائے کچھ دھڑے حکومت سے ڈائیلاگ کرنے کے حق میں ہیں کچھ کہتے ہیں اگر پی ٹی آئی نے ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کچھ مولانا فضل الرحمن سے راہ ورسم بڑھانے کی بھی مخالفت کر رہے ہیں غرضیکہ ہر سطح پر تحریک انصاف میں مختلف سوچیں پیدا کر کے مختلف دھڑوں کو فعال کر دیا گیا ہے۔ اگر بانی پی ٹی آئی کو رہائی نہیں ملتی تو پارٹی کے اندر اختلافات مزید گہرے ہوتے جائیں گے لیکن دلہن وہی جو پیا من بھائے کے مصداق تحریک انصاف میں اسی کی بات کو وزن دیا جاتا ہے جسے بانی پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہو۔ ورکرز کو کنفیوژن یہ ہے کہ لمبے عرصہ سے بانی پی ٹی آئی کی براہ راست کوئی ہدایات ان تک نہیں پہنچ پا رہیں۔ جن شخصیات کو بانی پی ٹی آئی نے ان سے ملاقات کی اجازت دے رکھی ہے ان کی مرضی ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے پیغام کو کس طرح سے ڈیلیور کرتے ہیں۔ پیغام پہنچانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہر کوئی اپنے مطلب اور مفاد کو مدنظر رکھ کر پیغام پہنچاتا ہے۔ انتخابات میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ردوبدل ہوتے رہے۔ ملاقات کرنے والی قیادت اپنے من پسند لوگوں کے کارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے اور ناپسند لوگوں کے بارے مبہم باتیں بتا کر اپنی مرضی کا پیغام حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کنفیوڑن نے تحریک انصاف کے اندر توڑ پھوڑ شروع کر رکھی ہے۔ کچھ لوگ ایجنڈے کے تحت کام پر لگے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ آپس کی لڑائیاں کیا رنگ لاتی ہیں۔  یہ تو ممکن ہے کہ حکومت بانی چیرمین کی قید کے دوران پارٹی کے اختلافات کے باعث کسی موثر احتجاج سے بچ جائے لیکن تحریک انصاف صرف بانی پی ٹی آئی کا نام ہے وہ جب بھی رہا ہوں گے ان کی ساری پارٹی منٹوں سکینڈوں میں دوبارہ متحد ہو جائے گی لہذا پارٹی کو تقسیم کرنے پر توانائیاں صرف کرنے کی بجائے اتفاق رائے کی کوئی راہ نکالنی چاہیے ورنہ سیاسی افراتفری سب کچھ نگل رہی ہے۔ خدارا استحکام کی طرف آنے کی راہ ہموار کی جائے۔ 
=…=…=

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...