ریاست اور سیاست ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ریاست سے مراد ایک ایسی منظم قوم جو کم و بیش آزاد ہوتی ہے اور اسکے قبضہ و تصرف میں ایک مستقل اور معین علاقہ ہوتا ہے۔ ریاست سے انتظامی تقسیم کا دوسرا درجہ مراد لیا جاتا ہے۔ جیسے وفاق میں شامل ریاستیں صرف اندرونی معاملات میں خودمختار ہوتی ہیں۔ بیرونی معاملات، کرنسی اور دفاع وغیرہ پر وفاق یا مرکز کا کنٹرول ہوتا ہے۔ریاست کا قیام اس لیے عمل میں لایا جاتا ہے کہ مخصوص علاقے میں آباد افراد کو آزادی سے زندگی بسر کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور اور پورا موقع ملے۔ اور وہ امن و سکون کی فضاء میں پرامن طریقے سے اپنی زندگیاں گزار سکیں۔
پاکستان بھی ایک آزاد ریاست ہے جس کا اپنا ایک آئین ہے اور اْس آئین کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک جمہوری ملک ہے اس لیے مسلمہ حقیقت ہے کہ یہاں سیاست بھی ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آئین پاکستان کی وجہ سے سیاست قائم ہے۔ پاکستان کا نظام پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ جس کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔آئین پاکستان نے پاکستانی حکومت کا پورا آئینی ڈھانچہ بیان کیا ہے۔ مختلف شعبوں جیسے حکومت، عدلیہ اور پارلیمان میں اختیارات کو تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس میں وفاق اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ وفاق صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ملکی مفاد کے اہم فیصلے کرتا ہے۔چونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اس لیے یہاں سیاست بھی ہوتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ سیاست اچھی ہوتی ہے یا بْری۔ گزشتہ 76 سال سے ہم نے سیاست کے کئی ادوار اور ا س میں کئی اتار چڑھاء دیکھے ہیں لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ریاست اور سیاست ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ سیاست نے ایک طرح سے ریاست میں گند گھول رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد اتنی ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ گزشتہ سال الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے جو اعدادوشمار جاری کئے اْسکے مطابق یہ تعداد 176 بنتی ہے جو بہت ہی غیر معمولی ہے۔ سیاست کے کلچر نے ریاست کے کلچر کو بْری طرح متاثر اور داغدار کر رکھا ہے۔ ہماری سیاست اور ریاست کے قصے اب ہر طرف زبانِ زد عام ہیں۔ اکثر اوقات اپنی حرکتوں سے ہم دنیا کیلئے ’’جگ ہنسائی‘‘ کا سامان پیدا کرتے ہیں جو کسی طرح بھی مستحسن بات نہیں۔ ریاست پاکستا ن کا سربراہ صدرِ مملکت ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق صدر کا مسلمان اور پاکستانی ہونا ضروری اور لازمی ہے۔ صدر پانچ سال کیلئے منتخب ہوتا ہے۔ پانچ سال پورا ہونے سے پہلے صدر اگر استعفیٰ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ صدر کی برطرفی اگر مقصود ہو تو اسے ہٹانے کیلئے پارلیمان کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ یہ اکثریت حاصل ہو جائے تو صدر کو اْسکے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں سارے اختیارات وزیراعلیٰ اور اْسکی کابینہ کے پاس ہوتے ہیں۔ تاہم پارلیمان کو بھی بڑے اختیارات حاصل ہیں۔ ان حاصل کردہ اختیارات کے تحت پارلیمان قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے۔ وزیراعظم کو منتخب کرنے کا اختیار بھی پارلیمان کو حاصل ہے۔ پاکستان کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایک ایوان قومی اسمبلی اور دوسرا ایوان سینیٹ کہلاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کا چنائو ووٹ کے ذریعے عام ووٹر کرتا ہے جبکہ سینیٹ کے ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ووٹ دیکر کرتے ہیں۔وزرائکا تقرر وزیراعظم کے مشورے پر صدرِ مملکت کو کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک حکومت تشکیل پاتی ہے اور امورِ ریاست چلتے ہیں۔
جہاں تک سیاست کی بات ہے تو وہ بھی ایک جمہوری پارلیمانی نظام حکومت میں ضروری ہے۔ کئی خاندانوں میں سیاست نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ کہیں باپ تو کہیں بیٹا یا بیٹی، کہیں بھائی یا چچا اور کزن۔ یہ سب ہماری سیاست کے اہم کردار ہیں۔ سیاست میں ریٹائرمنٹ کبھی نہیں ہوتی۔ سیاستدان 80سال کا بھی ہو جائے تو سیاست سے کنارہ کشی نہیں کرتا۔ اپنے خاندان میں سے ہی کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیتا ہے۔ جو اْس کی سیاست کو لے کر آگے چلتا ہے۔ چاہے کسی کو مجھ سے اختلاف ہو، لیکن ایسا ہوا ہے ، ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ کیا نسل در نسل سیاست ہونی چاہیے؟آئین اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ کوئی بھی سیاست کر سکتا ہے۔ یہ کہنا محض الزام تراشی ہے کہ خاندانی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی میں سیاست کا ہنر اور سلیقہ ہے وہ رموزِ سیاست سے آشنائی رکھتا ہے تو اْسے ضرور سیاست کرنی چاہیے۔ سیاست میں آنا چاہیے۔محض یہ کہہ کر اْسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنا چاہئیں کہ چونکہ فلاں سیاستدان کا بیٹا ہے اس لیے اسے سیاست نہیں کرنی چاہیے کہ یہ مورثی سیاست ہو گی۔ سیاست کوئی بھی کرے، موروثی ہو یا انفرادی۔ طریقے اور سلیقے سے کی جائے۔ عبادت سمجھ کر ہو تو اْسکے دوررس نتائج ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جس قسم کی سیاست ہو رہی ہے۔ اْس نے سیاست کو ہی رسوا اور بدنام کر دیا ہے۔ سیاست کے اچھے چہرے بھی بدنما داغ بن چکے ہیں۔ آپ اگر کانٹوں کے بیج بوئیں گے تو اْس میں سے آم کی فصل تو نہیں اْگے گی، کانٹوں کی فصل ہی تیار ہو گی پھر اْسے کوئی ہاتھ لگا سکے گا؟ اب سیاست میں کانٹے بونے والے بھی اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ اس فصل کو تیار کرنیوالے ہاتھ بھی اب اس سے بچنا چاہتے ہیں۔ سیاست کی بات کہاں سے شر وع ہو اور کہاں کریں ختم؟ اس سارے جھگڑے، بگڑے معاملات کا ذمہ دار اور قصور وار کون ہے؟ گناہ کس کے ہیں، سنگسار کس کو ہونا چاہیے؟ یہ بہت ہی تھکا دینے والی لمبی بحث ہے۔ ہر کوئی یہ ادراک رکھتا ہے کہ ریاست اور سیاست میں کیا ہو رہا ہے؟
ہمارے ہاں ریاست اور حکومت میں فرق نہیں کیا جاتا۔ یہ فرق نہ کرنے سے گڈ گورننس سمیت زندگی کے ہر شعبے پر فرق پڑتا ہے۔ سب سے بڑا فرق تو یہ ہے کہ حکومتیں اپنے آپ کو ریاست سمجھنا شر وع ہو جاتی ہیں۔ خود کو ریاست بنا کر پیش کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومتوں کی نااہلی، ناقص کارکردگی ، وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے حکومتی کاموں کو بھی ریاست کے ذمے لگا دیا جاتاہے۔ جب عوام ان حکومتی اقدامات کیخلاف ردعمل دیتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں، سڑکوں پر آتے ہیں تو جواب دینے کی بجائے ان کو ریاست کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور انکی تحریکوں کو کچل دیا جاتا ہے حالانکہ عوام ریاست کیخلاف احتجاج نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک خاص وقت میں، ایک خاص حکومت ، ایک خاص حکمران طبقے اور اشرافیہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح حکومت اپنے آپ پر تنقید کو ریاست کے خلاف تنقید قرار دیکر طاقت کے استعمال سے اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہے۔ تاریخ میں جس طرح حکومت مخالف دانشوروں ، مفکروں اور سیاستدانوں کو حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ریاست دشمن، ملک دشمن اور غیر محب وطن بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔
موجودہ دور بہت زیادہ شعور کا دور ہے۔آگاہی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ معلومات تک عام آدمی کی رسائی بھی آسان اور ممکن ہو گئی ہے اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ریاست مخالف سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ایسے بیانات نہیں دینے چاہئیں جو ریاست مخالف ہوں یا جس سے ریاست کے وقار کو دھچکا لگتا ہو۔ ریاست ہو گی تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔ ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔