بدھ ، 26  ذوالحج   ،    1445ھ،3 جولائی  2024ء

وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان تنخواہ نہیں لے رہے۔ عطاء اللہ تارڑ۔
اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ فی سبیل اللہ کام کر رہی  ہے،اور یہ تنخواہ یا مراعات نہیں لے رہے۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقات کی عیاشیوں پر روک لگائی جائے اور مفت بجلی، گیس ، کرائے اور ٹکٹوں کے علاوہ ان کو حاصل مفت شاہانہ زندگی کے اخراجات ختم کئے جائیں۔ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے یہ دعوے کر کے الیکشن لڑتے ہیں کہ وہ عوام کو مسائل سے نجات دلائیں گے مگر ان کے تو اپنے مسائل ختم نہیں ہوتے آئے روز ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے بل اسمبلیوں میں چپکے سے اتفاق رائے سے منظور ہو جاتے ہیں۔ اب پھر شور مچا ہے بقول شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے کہ صوبائی و قومی ارکان اسمبلی کو 500 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ دئیے جا رہے ہیں۔ یہ تو صاف ان کو نوازنے کی کوشش ہے۔ گرچہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اس سے انکار کر رہے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہتے ہیں ناں 
’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ سو اب یہ 500 ارب لوگوں کی نوک زبان آ گئے ہیں یہ کسی صورت آسانی سے ہضم نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی اس وقت یہی شور ہر طرف سنائی دے رہا ہے کہ اب قربانی عوام نہیں خاص طبقے دیں۔ وزیر اعظم کا بھی یہی کہنا ہے تو ٹھیک ہے۔ تمام طبقات کی مراعاتوں پر قدغن لگایا جائے اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔ آئی ایم ایف بھی یہی کہتا ہے مگر ہمارے ہاں الٹا ہوتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کو نوازا جاتا ہے۔ عوام کو مزید لتاڑا جاتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
کراچی میں اے این ایف کا چھاپہ، کنٹینر سے ایک من آئس برآمد۔
سمگلر مافیا ہمارے ملک کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں سرفہرست ہے۔ انسانی سمگلنگ ہو یا منشیات کی سمگلنگ۔ ہر جگہ ہمارے ملک کا نام ان وطن دشمن لوگوں کی وجہ سے بدنام ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ کے دھندے میں پاکستان ان ممالک میں جو اس بدنام زمانہ کام میں سرفہرست ہیں۔ پاکستانی ، افغانی ہی نہیں دیگر ممالک کے لوگ بھی یہاں سے یورپ جانے کے لیے ایران اور ترکی کا روٹ استعمال کرتے ہیں اور تاریک ان دیکھے راستوں میں کبھی پہاڑوں میں کبھی صحرائوں میں اور کبھی سمندر میں موت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال منشیات کی سمگلنگ کی ہے جوتوں سے لے کر ادویات تک میں سامان  کے خفیہ خانوں میں کیپسول نگل کر پیٹ میں منشیات لے کر بیرون ملک جانے والے آئے روز پکڑے جاتے ہیں مگر چونکہ ان کے سرپرست یعنی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث لوگ گرفتار نہیں ہوتے یوں یہ سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں اے این ایف نے کراچی گیٹ وے ٹرمینل پر چھاپہ مارا اور ایک کنٹینر سے ایک من آئس برآمد کی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ آئس آلوئوں میں بھر کر لوڈ جتنی مہارت سے طالب علم بوٹی تیار کرتے ہیں اگر محنت کریں تو پاس ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جتنی محنت سے ان آلوئوں میں اندر سے گودا نکال کر آئس بھری گئی۔ اگر آلوئوں کی کاشت پر اتنی محنت کی جاتی تو پوری ایک فصل تیار ہو سکتی تھی۔ یہ منشیات قطر بھجوائی جا رہی تھی۔ اتنی بڑی مقدار میں منشیات کی سمگلنگ وہ بھی دوست ملک کو برداشت نہیں ہو سکتی۔ یہ ہماری بدنامی ہی نہیں تعلقات میں بھی رکاوٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اب پتہ کرنا ہو گا کہ یہ مال کہاں سے آیا کس نے بک کرایا کس نے بک کیا اور کس نے وصول کرنا تھا۔ ان سب کو بے نقاب کر کے پاکستان اور قطر میں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کرے۔ 
٭٭٭٭٭
مریم نواز کی نکاسی آب میں مصروف واسا ورکرز کو شاباش۔
بارش کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے جس تیزی سے نکاسی آب کے انتظامات کا جائزہ لیا وہ قابل تحسین ہے۔ بس ایک کسر رہ گئی وہ لانگ بوٹ پہن کر سیلابی پانی میں نہیں اتریں۔ خاتون ہونے کی وجہ سے۔ بہرحال اس کے باوجود جمع ہونے والے پانی میں گاڑی سمیت جا کر انتظامات کا معائنہ کرنا بھی بڑی اچھی بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ رہی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صفائی اور نکاسی آب میں مصروف ورکرز کو پاس بلا کر ان کو شاباش دی اور حوصلہ افزائی کی جس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ مریم نواز نے لکشمی، ڈیوس روڈ، مال روڈ اور قرطبہ چوک پر واسا کے قائم کردہ نکاسی آب کے مراکز کا بھی دورہ کیا اور کام کا جائزہ لیا۔ ان کی اس برق رفتاری سے بلاشبہ لوگوں کو شہباز شریف یاد آئے ہوں گے جو ایسی کسی بھی ایمرجنسی میں دن ہو یا رات کسی بھی وقت دورے پر نکل آتے اور انتظامیہ کے لیے درد سر بن جاتے تھے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے ہی وزیراعلیٰ کی صوبوں کو ضرورت ہوتی ہے ورنہ صرف وزیر اعلیٰ ہائوس میں بیٹھ کر اجلاس کرنا ، تصویریں بنانا کوئی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام صوبوں کے لوگ خواہش کرتے تھے کہ ان کے وزیر اعلیٰ بھی شہباز شریف ہوں تاکہ کم از کم عوام کے مسائل کے حل  کے لیے اور کچھ کریں یا نہ کریں مگر متحرک تو ہوں۔ ہر مرحلے میں عوام کے پاس پہنچ کر ان کی داد رسی تو کرنے کی کوشش کریں۔ اب یہی کام موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز بھی کر رہی ہیں۔ جب سے انہوں نے حکومت سنبھالی ہے۔ وہ کبھی یہاں کبھی وہاں دوروں پر نظر آتی ہیں۔ اس سے اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم عوام کو تو تسلی ہوتی ہے کہ ان کے حکمرانوں کو ان کی فکر ہے۔ 
٭٭٭٭٭
جنوبی کوریا کی موسیقی کیوں سنی۔ شمالی کوریا میں نوجوان کو سرعام پھانسی۔
کہنے کو تو یہ حب الوطنی کا ایک شدید اظہار ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی کی تفریق سے ہٹ کر دونوں ممالک کوریا ہی کے بنے ہیں۔ وہی ایک مشرقی بلاک اور ایک مغربی بلاک کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ یہ سرد جنگ کی پالیسی آج بھی ان دونوں کو آرام سے رہنے نہیں دے رہی۔ دونوں ممالک ترقی کی دوڑ میں بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اب یہ خبر ہمارے ان دوستوں کے لیے بھی تازیانہ عبرت ہے جو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے پاکستان کے پڑوسی اور سب سے بڑے دشمن کی بلائیں لیتے نظر آتے ہیں اور ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے رہتے ہیں جس ملک نے آج تک دل سے پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا اور کھلم کھلا اسے مٹانے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے اور ہم ان کی موسیقی اور کلچر کو دن رات پرموٹ کرتے پھرتے ہیں۔ شادی بیاہ تو لگتا ہے ہندوستانی تقریب بن گئی ہے۔ بس صرف منڈپ ،آگ کے گرد پھیرے اور پنڈت کی کمی رہ گئی ہے۔ باقی سب ہم وہی کرتے ہیں جو ہندوستانی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں پھانسی نہ سہی کم از کم اس قسم کے ہندوانہ رسوم و رواج پر پابندی لگا کر کیا ہم محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت نہیں دے سکتے۔ شاید اس طرح خود لوگوں میں بھی احساس پیدا ہو کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ہمیں اپنے سفاک دشمن کی نقالی زیب نہیں دیتی۔ 

ای پیپر دی نیشن