پنجاب کے مختلف علاقوں میں پری سون مون کی بارشیں متنوع مسائل کا باعث بن رہی ہیں جن میں ایک اہم مسئلہ نکاسیِ آب بھی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بارش کے کھڑے پانی کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی دارالحکومت کے مختلف علاقوں کے دورے کیے۔ وزیراعلیٰ کے ہنگامی دورے سے انتظامی افسران کی دوڑیں لگ گئیں۔ مریم نواز نے ہدایت کی کہ پانی کی نکاسی مکمل ہونے تک کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنرز اور دیگر انتظامی افسران فیلڈ میں رہیں۔ پورے پنجاب میں پانی کی نکاسی کو بروقت یقینی بنایا جائے، عید پر صفائی مہم کی طرح نکاسی آب کے لیے سیف سٹی ٹیکنالوجی استعمال کریں، سیف سٹی کیمروں اور ڈرون کے ذریعے کھڑے بارش کے پانی کو چیک کریں۔ وزیراعلیٰ نے انتظامیہ سے ہر آدھے گھنٹے بعد صورتحال کی مانیٹرنگ رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔ مریم نواز نے غیر معمولی بارشوں کے حوالے سے جاری آپریشن اور انتظامات کا جائزہ بھی لیا اور شہر کے مختلف علاقوں میں نکاسیِ آب کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی کاوشیں یقیناً قابلِ قدر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے یہ مسئلہ جوں کا توں کیوں ہے؟ واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا) کے افسران و اہلکاران کیا بارش کے بعد سڑکوں پر کھڑا پانی نکالنے کے لیے رکھے گئے ہیں؟ آخر یہ لوگ حکومت کو بتاتے کیوں نہیں کہ اس مسئلے کا مستقل حل کیا ہے؟ اگر صوبائی دارالحکومت میں یہ حالات ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کے دیگر شہروں، قصبوں اور دیہات میں حالات کیا ہوں گے۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں اور اس حوالے سے جامع منصوبہ بندی کریں۔ مزید یہ کہ لاہور میں ہی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے تین چار سال سے نامکمل ہیں اور بارشوں کے موسم میں ان علاقوں کے حالات ناقابلِ بیان حد تک بگڑ جاتے ہیں، ان میں سبزہ زار سکیم کی مین بلیوارڈ بھی شامل ہے جس کو واسا کی بڑی پائیپ لائن ڈالنے کے لیئے دوسال قبل توڑا گیا اور پھر آج تک اس سڑک کی دوبارہ تعمیر کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی۔وزیرعلیٰ کو اس سڑک کا بھی خود معائینہ کرنا چاہیئے اور ان نامکمل منصوبوں کی طرف بھی فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام کے لیے پریشانی اور اذیت کا باعث بننے والے ان ادھورے کاموں کو جلد مکمل کیا جاسکے۔