اپردیر میں پاکستان کی چیک پوسٹ پر افغان شدت پسندوں کا حملہ‘ پس پردہ محرکات‘ امکانات؟ ....یہ را‘ نیٹو اور کرزئی کی مشترکہ سازش تو نہیں؟

Jun 03, 2011

سفیر یاؤ جنگ
ضلع اپر دیر میں پاکستان افغانستان سرحدی علاقے میں واقع سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر گزشتہ روز سینکڑوں افغان شدت پسندوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں سات سیکورٹی اہلکار اور ایک راہگیر جاں بحق ہو گیا جبکہ دوسرے ذرائع نے اس حملے میں 27 سیکورٹی اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ افغان شدت پسندوں نے یہ حملہ شلتالو ٹاﺅن میں قائم چیک پوسٹ پر بھاری ہتھیاروں سے کیا جس کے نتیجہ میں دو سکول بھی تباہ ہو گئے۔ سیکورٹی فورسز کی بھرپور جوابی کارروائی پر حملہ آور فرار ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد علاقے میں شدید خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق چیک پوسٹ پر حملہ کے بعد دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ ہوتی رہی تاہم شدت پسندوں کی جانب سے کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ شدت پسندوں نے ایک رابطہ پل کو بھی اڑا دیا۔
سینکڑوں کی تعداد میں افغان شدت پسندوں کا سرحد عبور کرکے پاکستان سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ آور ہونا بذات خود ملک کی سلامتی کے حوالے سے تشویشناک ہے‘ جبکہ اس حملے میں ہماری سیکورٹی فورسز کے 27 اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع درست ہے تو یہ ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ فوجی اپریشن کے ذریعے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے دعوﺅں کے باوجود نہ صرف دہشت گردی جاری ہے بلکہ اب شدت پسندوں میں ہماری سیکورٹی چیک پوسٹوں پر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہونے کا حوصلہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ ہماری چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کے حملے کا یہ معمولی واقعہ نہیں‘ اس لئے اسکے پس پردہ تمام ممکنہ محرکات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے۔ ابھی دو روز قبل ہی امریکی کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی نے نیٹو فورسز کی افغان شہری آبادیوں پر بمباری کیخلاف اپنا سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نیٹو فورسز کو آخری وارننگ دی اور ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان میں جنگ لڑے کیونکہ انکے بقول دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے وہیں پر ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں نے افغانستان سے پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر اور پاکستان کی سیکورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کرکے کرزئی کے دعوے کی نفی کر دی ہے اور یہ حقیقت کھول کر بیان کردی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بلکہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور بدترین دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے جس میں معصوم بے گناہ عام شہریوں بشمول بچوں اور خواتین کے علاوہ ہماری سیکورٹی فورسز کے ارکان کا بھی خونِ ناحق بہہ رہا ہے۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں زیادہ تر وہ تربیت یافتہ دہشت گرد شامل ہیں جو افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں مختلف علاقوں میں پہنچ کر دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ ان دہشت گردوں میں زیادہ تر بھارتی ”را“ کے وہ تربیت یافتہ دہشت گرد شامل ہیں جنہیں افغانستان کے مختلف شہروں میں موجود 14 بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے افغانستان میں ہی تربیت دی گئی اور انہیں جدید اسلحہ اور پیسے دیکر افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوا یا گیا ہے۔ اس تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں کے بھیس میں کہیں افغانستان میں تربیت حاصل کرنےوالے بھارتی ”را“ کے یہی دہشت گرد تو ہماری سیکورٹی چیک پوسٹ پر حملہ آور نہیں ہوئے؟ اس حملے میں شدت پسندوں کے زیر استعمال ہتھیاروں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہتھیار کہاں سے حاصل کئے گئے ہونگے۔ سانحہ پی این ایس مہران کراچی میں دہشت گردی کی واردات میں بھی تو دہشت گردوں کے زیر استعمال واکی ٹاکی اور اسلحہ امریکی ثابت ہوا ہے جو نیٹو فورسز کے زیر استعمال ہے۔ اسی طرح کوئی بعید نہیں کہ اپر دیر کے علاقے میں ہماری سیکورٹی چیک پوسٹ پر بھارتی ”را“ نیٹو فورسز اور کٹھ پتلی کرزئی کی مشترکہ حکمت عملی اور منظم سازش کے تحت حملہ کیا گیا ہو‘ جبکہ دہشت گردوں کو بھاری تعداد میں پاکستان بھجوانے کی کرزئی اور ”را“ کی یہ مشترکہ سازش بھی ہو سکتی ہے تاکہ پاکستان کے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہونے سے متعلق اپنے دعوے کا ثبوت پیش کیا جا سکے۔ اس لئے اس سارے معاملہ کا پوری سنجیدگی کے ساتھ کھوج لگانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی سالمیت کے درپے نادیدہ قوتوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
اس حملے کا دوسرا ممکنہ پس منظر امریکی نیٹو فورسز کے شمالی وزیرستان میں افغان شدت پسندوں کے حقانی گروپ کےخلاف اپریشن اور اورکزئی ایجنسی میں پاکستان سیکورٹی فورسز کی جانب سے شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر بمباری کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس بمباری میں 17 شدت پسندوں کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور غالب امکان ہے کہ افغان شدت پسندوں کی جانب سے متذکرہ دونوں واقعات کا فوری جواب دینے کیلئے پاکستان کی سیکورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا ہو۔ اگر تو یہ حملہ متذکرہ واقعات کے ردعمل میں ہی کیا گیا ہے تو ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ شمالی وزیرستان میں اپریشن کی صورت میں شدت پسندوں کا کتنا خوفناک ردعمل سامنے آئیگا اور اس میں کس کس کا خون بہے گا اور کس کس کو خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ امریکی ڈرون حملوں اور جنوبی وزیرستان اپریشن کے ردعمل میں وطن عزیز پہلے ہی بدترین دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے‘ اگر اب امریکہ کے ساتھ ہونیوالی مفاہمت کے نتیجہ میں امریکہ کے متعینہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کیخلاف پاکستان امریکہ مشترکہ اپریشن کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپریشن کا دائرہ شمالی وزیرستان تک پھیلا دیا جاتا ہے تو اس سے متاثر ہونیوالے خاندانوں کی جانب سے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے ذریعہ ہماری سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں سے کیا کیا انتقام نہیں لیا جائیگا؟
اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ”وقت نیوز“ کے زیر اہتمام ”وزیراعظم آن لائن“ پروگرام میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے کسی کی ڈکٹیشن پر عمل نہیں کیا جائیگا‘ وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے بھی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں واضح کیا ہے کہ حکومت نے شمالی وزیرستان میں اپریشن کا کوئی فیصلہ کیا ہے‘ نہ امریکہ سے ایسا کوئی معاہدہ ہوا ہے‘ جبکہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل آصف یٰسین ملک نے بھی تصدیق کی ہے کہ انہیں شمالی وزیرستان میں اپریشن کا کوئی حکم نہیں ملا‘ اسکے باوجود امریکی حکام مصر ہیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن کیلئے آمادہ ہو چکا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے ہمراہ اسلام آباد میں پاکستان کی اعلیٰ حکومتی اور عسکری قیادتوں سے ملاقاتیں کرنیوالے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن امریکہ واپس جا کر تواتر کے ساتھ یہ بیان دے رہے ہیں کہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کیخلاف مشترکہ اپریشن کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے اور پاکستان شمالی وزیرستان میں اپریشن پر بھی آمادہ ہو چکا ہے تو شمالی وزیرستان میں اپریشن نہ کرنے یا کسی کی ڈکٹیشن پر اپریشن نہ کرنے کے دعوے مشکوک نظر آتے ہیں۔ اگر امریکی حکام کی پاکستانی اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بعد شمالی وزیرستان میں نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے حقانی گروپ کےخلاف کارروائی کی ہے اور اورکزئی ایجنسی میں ہماری سیکورٹی فورسز کی جانب سے جیٹ طیاروں کے ذریعے بمباری کی گئی ہے تو اس سے مبینہ دہشت گردوں کیخلاف امریکی ڈومور کے تقاضوں پر ہماری جانب سے سرِتسلیم خم کرنے کا عندیہ ہی ملتا ہے اس لئے شمالی وزیرستان میں اپریشن کےلئے قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچ لیجئے کہ یہ سودا ہمیں کتنا مہنگا پڑیگا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمیدگل کے بقول ہماری سیکورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں اپریشن کی غلطی کی تو اس سے ملک کا جغرافیہ اور تاریخ بدل جائیگی۔ اس تناظر میں اپردیر کی چیک پوسٹ پر افغان شدت پسندوں کے حملے میں ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کیلئے کئی سبق موجود ہیں۔ انہیں اب جائزہ لینا چاہیے کہ امریکی مفادات کی جنگ میں شریک ہو کر ہم نے اپنی تباہی کے سوا اب تک کیا حاصل کیا ہے؟ اس لئے اب ”ڈومور“ کے نئے امریکی تقاضے کیوں پورے کئے جائیں؟ کیا یہی وقت نہیں کہ امریکہ کو سفارتی ادب آداب کے ساتھ خداحافظ کہہ دیا جائے اور صرف ملک کی سلامتی کی طرف توجہ دی جائے کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ ملک کی سلامتی ہی کو خطرہ لاحق ہے۔
مکار بنیے کا جنگی جنون.... بھارت افغانستان فوجی تعاون
بھارت نے افغان سیکورٹی فورسز کی تربیت کیلئے تعاون کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ روز نئی دہلی میں افغان وزیر دفاع عبدالرحیم وردک نے بھارتی ہم منصب اے کے انتھونی سے ملاقات کی‘ انہوں نے کہا کہ ہم تربیت کے حوالے سے بھارتی تعاون کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دفاع سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے خواہش مند ہیں۔
امریکہ کو افغانستان میں بہت سے جارحین کی طرح ذلت آمیز شکست کا سامنا ہے‘ اس نے آج نہیں تو کل اس خطے سے نکلنا ہے‘ جاتے ہوئے وہ پاکستان کو مستقل جنگ کی دلدل میں پھنسانا چاہتا ہے‘ افغانستان سے جنگ سمیٹنے کیلئے اس نے طالبان سے مذاکرات کا در کھول لیا ہے‘ پاکستان پر نہ صرف طالبان سے مذاکرات نہ کرنے پر زور ہے بلکہ پاکستان میں جنگ کا دائرہ کار بھی وسیع کر رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے دباﺅ پاکستان کو مستقل بدامنی سے دوچار کئے رکھنے کی سازش ہے۔ امریکہ بارہا کہہ چکا ہے کہ انخلاءکے بعد افغانستان میں بھارت کا کردار مزید بڑھا دیا جائیگا۔ افغانستان میں بھارت کے ڈیڑھ درجن کے قریب قونصل خانے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کو مزید کردار دیا گیا تو پاکستان کی سالمیت کو مزید خطرات درپیش ہونگے۔ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے‘ اس کو فوجی تربیت کی ضرورت ہے تو پاک فوج بخوبی پوری کر سکتی ہے۔ اس کا احساس افغان حکومت کو ہونا چاہیے‘ لیکن بھارت اور امریکہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے افغان حکمرانوں کے اندر سے شاید اسلامی غیرت مر چکی ہے کہ پاکستان کیخلاف جنگی جنون میں مبتلا بھارت کا اپنے ہاں عمل دخل بڑھانے کیلئے بے چین ہیں۔ بھارت نے پاکستانی بارڈر کے قریب راڈار نصب کرنے کی تیاری کرلی ہے‘ میزائل سٹاک سنٹر کے قیام کیلئے 1400 ایکڑ اراضی فضائیہ کے حوالے کی جاچکی ہے‘ ایبٹ آباد میں امریکی اپریشن کے ساتھ ہی اسکی راجستھان میں فوجی مشقیں شروع ہوئیں جس کا دائرہ پنجاب تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اگر اس کو افغانستان میں کھل کھیلنے کا موقع ملا تو پاکستان کو دو طرف سے گھیر لے گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے ساتھ نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کے تعلقات بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کیلئے پاکستان کو اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کردینی چاہئیں کیونکہ بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف نہیں آنیوالا۔ سابق امریکی نائب وزیر خارجہ سٹیفن کوہن نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے مابین سو سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جنگ چل سکتی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو 63 سال سے مذاکرات میں الجھا رکھا ہے‘ جنگ ہو یا امن پاکستان اس مسئلہ کو مزید معرض وجود میں ڈالے رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب اسکے حل کیلئے حتمی آپشن کو بروئے کار لانے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ حتمی حل ہمارا ایٹم بم ہے‘ جو شوکیس میں سجانے کیلئے نہیں بنایا گیا۔
زرعی ٹیکس کے نفاذ کی پالیسی ‘ مشترکہ مفادات کونسل میں وزیراعظم گیلانی نے زرعی ٹیکس کے نفاذ کیلئے یکساں پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا۔
ٹیکس تو پہلے ہی کافی ہیں‘ عام آدمی پر کسانوں اور زمینداروں پر بھی‘ بڑے زمینداروں پر زرعی ٹیکس آپ اس صورت میں لگا سکتے ہیں جب حکومت کی رٹ مکمل طور پر قائم ہو۔ قوم آٹے اور چینی کے بحران کی ڈسی ہوئی ہے‘ عدلیہ نے چینی کے ریٹ کم کرنے کے احکامات جاری کئے تو حکومت ان پر عمل درآمد نہ کرا سکی۔ ذخیرہ اندوزوں سے آٹا بھی برآمد نہ کرایا جا سکا‘ زمینداروں پر ٹیکس لگا تو حکومت کی ڈھیلی گرفت کی تاریخ دہرا دینگے۔ زرعی ٹیکس لگا کر آپ ایک نیا مافیا پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ جس زمیندار پر دس لاکھ ٹیکس لاگو ہو گا‘ وہ اپنی فصلوں سے 20 لاکھ کمائی کرنے کی کوشش کریگا۔ بوجھ کس پر پڑےگا؟ یقیناً عام آدمی متاثر ہو گا۔ مجوزہ ٹیکس کے منفی اثرات عام آدمی پر مرتب ہونگے‘ عام استعمال کی اشیاءمہنگائی ہونگی اور بالخصوص زرعی اجناس کے نرخوں میں اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم عام لوگوں پر مہنگائی کے پہلے سے موجود بوجھ کا احساس کرتے ہوئے زرعی ٹیکس لگانے سے گریز کریں۔
مزیدخبریں