تحریک پاکستان کے مختلف ادوار اور مراحل کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ 14 اگست 1947ءکو معرض وجود میں آنے والی اسلامی مملکت کو آزاد اور خود مختار حیثیت حاصل کرنے سے پہلے کے چند ماہ اس لحاظ سے زبردست اہمیت رکھتے ہیں کہ یہی وہ وقت تھا جب برطانوی حکومت نے اسلامیان ہند کی جرات مندانہ جدوجہد اور خصوصاً قائداعظمؒ محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کی تاریخی کاوشوں نے مجبور ہو کر نہ صرف ہندوستان کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا بلکہ خود انگریزوں اور ہندو¶ں کے گٹھ جوڑ کے باوجود مملکت خداداد پاکستان کو بھی اس خطے میں ایک ایسی آزاد ریاست کا روپ ملا جہاں برعظیم کے مسلمانوں کو اپنے مذہب‘ سیاست اور ثقافتی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنے کا سنہری موقع نصیب ہوا۔ یوم آزادی سے صرف 10 ہفتے قبل یعنی 3 جون 1947ءکا دن اس لحاظ سے بے پناہ اہمیت کا حامل ہے کہ اسی روز سلطنت برطانیہ نے براعظم ایشیا میں اپنی سب سے بڑی نوآبادی کو نہ صرف آزاد کرنے کا اعلان کیا بلکہ متعصب ہندو¶ں کی خواہشات کے برعکس دو قومی نظرئیے کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی الگ مملکت کا حق بھی تسلیم کر لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ 1946ءکے انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا تھا کہ قائداعظم کی جاندار قیادت میں اسلامیان ہند نے علاقے میں اپنی الگ اسلامی جمہوری ریاست کے قیام کے حق میں ٹھوس فیصلہ دے دیا ہے اور واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو الگ ماحول میں زندگی بسر کرنے کا موقع دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ 3 جون 1947ءکو آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ما¶نٹ بیٹن نے ہندوستان کے بٹوارے کا جو فیصلہ کیا تھا۔ اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 1946ءکے الیکشن کے بعد ہندوستان کے عوام نے جدوجہد آزادی کو تیز تر کر دیا اور حالات بھی تیزی سے بدلنے لگے۔ ہندو کانگرس کی کوشش یہ تھی کہ آزادی متحدہ ہندوستان کو دی جائے جبکہ قائداعظم اور دیگر مسلمان لیڈروں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ تقسیم ہند ہو کر رہے گی کیونکہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک پسماندہ قوم کا درجہ مل سکے گا۔ ایک جانب انڈین نیشنل کانگریس اور دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے لگیں اور 22 مارچ 1947ءکو برطانوی وائسرائے لارڈ ما¶نٹ بیٹن نے چارج سنبھال لیا۔ انہوں نے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما¶ں سے مذاکرات کئے اور نتائج سے آگاہ کرنے کے لئے لندن روانہ ہو گئے۔ برطانوی حکومت اور وائسرائے کے درمیان برعظیم کی آزادی اور خود مختاری کے بارے میں متعدد متبادل منصوبوں پر بھی بات چیت ہوتی رہی تاہم اعصاب شکن مذاکرات کے نتیجے میں تقسیم ہند اور آزادی کے بارے میں ایک منصوبے کا خاکہ منظور کر لیا گیا جسے لارڈ ما¶نٹ بیٹن نے 2 جون کو لندن سے واپس ہندوستان آکر مسلم لیگ اور کانگریس کے اعلیٰ رہنما¶ں کے سامنے بحث کے لئے پیش کیا۔ 2 جون ہی کو انہوں نے تمام سینئر سیاسی لیڈروں کا اجلاس بلایا اور ان سے حتمی بات چیت کے بعد اگلے روز یعنی 3 جون کو آل انڈیا ریڈیو سے اپنی نشری تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا جسے ”جون تھری پلان“ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ایک متحدہ مملکت کی حیثیت سے آزادی دینے کا کوئی فائدہ نہیں لہٰذا مسئلے کا حل دو ریاستوں کا قیام ہی ہے۔ 3 جون کے منصوبے کے اہم نکات میں کہا گیا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہندو¶ں اور مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں کو یکجا کیا جائے گا‘ تاہم بعض پیچیدگیاں اس سلسلے میں حائل ہیں جنہیں سلجھانے کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر پنجاب اور بنگال کے غیر مسلم اقلیتی اضلاع کے نمائندے چاہیں تو دونوں صوبوں کا بٹوارہ ضروری ہو گا۔ اس کے علاوہ شمال مغربی سرحدی صوبے اور آسام کے مسلم اکثریتی اضلاع میں رائے شماری کے ذریعے عوام سے پوچھا جائے گا کہ وہ ہندوستان میں رہنا چاہیں گے یا پاکستان میں۔
3 جون منصوبے کے کچھ اور اہم نکات بھی ہیں تاہم خاص بات یہ تھی کہ دو سرحداتی کمشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو مختلف صوبوں کے آپس میں ملحقہ مسلم اکثریتی اور ہندو اقلیتی اضلاع کی حد بندیوں کے بارے میں حتمی رائے دیں گے۔ اس طریق کار سے مسلم مملکت کو زبردست نقصانات پہنچائے گئے خصوصاً جب سرحداتی تعین سے متعلق ریڈ کلف ایوارڈ سامنے لایا گیا تو اس نے بے بنیاد حقائق کی بناءپر پنجاب میں ضلع گورداس پور اور تحصیل پٹھان کوٹ کی تقسیم میں گھپلے کئے جن کے نتیجے میں پاکستان کا کشمیر سے جغرافیائی رابطہ بھی کٹ گیا اور برطانوی حکومت تقسیم ہند کے ایجنڈے میں بھی ایسی ہیرا پھیری کر گئی کہ 66 برس گزرنے پر بھی انہی کے چھوڑے گئے تنازعات کے باعث پاکستان اور بھارت کے مابین مستقل کشیدگی کی فضا قائم رہی۔