مخصوص ممبران اسمبلی پاکستانی عورت کی نمائندہ ہیں؟

مخصوص ممبران اسمبلی پاکستانی عورت کی نمائندہ ہیں؟

Jun 03, 2013

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

مخصوص ممبران اسمبلی غیرمنتخب مگر ”منتخب“ خواتین ممبران جن کا اپنا حلقہ بھی نہیں ہے اور وہ ابھی سے ”فنڈ“ کی منتظر ہیں اور زبانی کلامی لوگوں کی خدمت کا اعلان کر رہی ہیں۔ انہوں نے کیمرہ مینوں سے اپنے کپڑوں، جوتوں، پرس، گھڑیوں، سونے کے زیورات، آنکھوں پر چڑھائے ہوئے چشموں کی تصویریں بنانے پر جھگڑا کیا۔ یہ سب کچھ دکھانے کیلئے تھا اور وہ خوب تیار ہو کر سج بن کر اسمبلی ہال تک پہنچی تھیں تو پھر اس پر اعتراض کیسا۔ جو لوگ اسمبلی کے اندر اور باہر تک نہیں پہنچ سکتے، وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنی نمائندہ عورتوں کو دیکھنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔ عجیب تضاد ہے.... اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے چشمے، جوتے، زیورات اور ملبوسات لوگوں کو نظر نہ آئیں تو یہ آپ پہنتی کیوں ہیں؟ سجنا اور اچھا نظر آنا عورت کا حق ہے۔ یہ بہت پرانی روایت ہے۔ سولہ سنگھار سے میک اپ کی ٹیکنالوجی کے سینکڑوں کمالات تک ایک تاریخ ہے مگر تاریخ کا حصہ بننے کیلئے اپنے کلچر اور روایات سے مربوط ہونا ضروری ہے۔ کمپلیکس اور گِلٹ (احساس جرم) سے نکلنا بھی بہت ضروری ہے۔
اسمبلی میں پہنچنے والی عورتوں کو رول ماڈل بننا چاہئے۔ انہیں دوسری عورتیں اور لڑکیاں رول ماڈل کے طور پر دیکھتی ہیں۔ عورتوں کو مردوں سے بھی آگے نظر آنا چاہئے مگر یہاں تو مرد ممبران بھی پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی اچھا نظر آنے کیلئے عورتوں سے کم اہتمام نہیں کرتے۔ اس پر غور کرنا چاہئے کہ اچھائی کیا ہے۔ ہم کسی کو اچھا آدمی اور اچھی عورت کہتے ہیں تو اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی وجہ سے کہتے ہیں۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں خواتین و حضرات کی نظریں اپنی نمائندہ عورتوں پر تھیں۔ وہ اسمبلی ہال میں آئی تھیں، کسی شادی میں نہیں آئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کوئی کیٹ واک ہونے والی ہے۔ کسی فیشن پریڈ میں نئے نئے ملبوسات کی نمائش میں شرکت کی کوئی تقریب تھی۔
میں حسن و جمال کے اس مقابلے میں حیرت کی معصومیت میں ڈوب گیا۔ حیرانی کی فراوانی ایک سرشار کر دینے والی خوشبو کی طرح میرے چاروں طرف بکھرنے لگی۔ فاٹا وزیرستان کے علاقے کی ایک خاتون رکن اسمبلی پورے لباس میں بہت اعتماد اور سلیقے سے چلتی ہوئی نظر آئی۔ سب لوگوں نے اسے دیکھا اور دیکھتے رہ گئے۔ وہ تہذیب و روایت کی پاسبان دکھائی دی۔ ساری نظروں میں اس کے لئے عزتمندانہ ستائش تھی۔ کسی مرد کے دل میں ایک عورت کے لئے عزت پیدا ہوتی ہے کہ وہ وفا حیا کی پیکر ہو، وہ ایک چادر میں لپٹی ہو۔ اللہ کرے اسمبلی میں وہ ہمیشہ اسی طرح رہے۔ وزیرستان کی عائشہ گلولئی اور رائے ونڈ کی مریم نواز کا دوپٹہ اللہ سلامت رکھے۔ میڈیا نے اس کے حوالے سے کئی کہانیاں بنا لی ہیں۔ ایک دور آباد پسماندہ علاقے کی خاتون عائشہ گلولئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ وہ پی ٹی وی پر خبریں بھی پڑھتی رہی ہے۔ اس نے انٹرنیشنل افیئرز میں ماسٹر کیا ہے۔ کمپیوٹر سائیسز میں بی ایس اور کمپیریٹیو ریلی جنز (بین المذہبی سٹڈیز) میں بھی ماسٹر کیا ہے۔ وہ پشاور میں خواتین صحافیوں کی صدر بھی رہی ہے۔ اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور زندگی کے کئی شعبوں میں سرگرم خاتون اتنی سادہ ہے۔ کامیاب ہے اور اپنی روایت کے ساتھ مربوط رہنے کے باوجود اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ سادگی میں آسودگی ہے اور سچی عورت بننے میں عزت مندی ہے۔ وہ میرٹ پر اور اپنی اہلیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ مقام تک پہنچی ہے۔ وہ بجا طور پر اس کی مستحق ہے۔ میں اسے مبارکباد دیتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ قومی اسمبلی میں اس کی موجودگی سے عورتوں کے مرتبے اور کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔ ایسی ایک مثال مجھے ماضی میں سمیحہ راحیل قاضی کی صورت میں قومی اسمبلی کے اندر نظر آتی ہے۔ وہ قاضی حسین احمد کی سچی بیٹی ہیں اور مذہبی خیالات رکھتی ہیں مگر عائشہ گلولئی تو اس طرح کی مذہبی خاتون نہیں ہے مگر وہ غیرمذہبی بھی نہیں ہو گی۔ کلچر روایات اور مذہبی زندگی میں آگے بڑھنے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اپنا آپ منواتے سے روکتا تو نہیں ہے۔ ساری اسمبلی میں عائشہ گلولئی لپٹی لپٹائی مگر نمایاں منفرد معزز اور محترم نظر آئی۔ میرے خیال میں کوئی عورت بدصورت نہیں ہوتی تو پھر اسے اس حوالے سے کانشس بھی نہیں ہونا چاہئے۔
میں یہاں نام لے کے خواتین کے لئے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں عورت کی عزت کو مقدم سمجھتا ہوں۔ ایک بڑے سیاستدان کی بیٹی اور کئی رشتہ دار خواتین ممبر اسمبلی ہوئی ہیں وہ اس طرح تیار ہو کر آئیں جیسے ان کا آپس میں مقابلہ ہو۔ زیب و زینت کا یہ مظاہرہ برائی نہیں ہے مگر اچھائی بھی نہیں ہے۔ بھڑکیلے لباس، لرزتے چہرے اور بہت نظر آنے والا زیور کسی اچھی عورت کی ترجمانی نہیں کرتا۔ جنہیں غریب عورتوں کے مسائل کو حل کرنا ہے عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنا ہے مگر ان کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ اس میدان جنگ کے لئے نہیں ہیں۔ ایوانوں کے شاندار ماحول میں یہ جدوجہد تو نہیں ہو سکتی۔ ان محترم خواتین کو تو یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ان کے لئے غیرانتخابی نامزدگی آئینی ہے۔ اور ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ہے۔ تھوڑی سی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ عارفہ خالد سفید کپڑوں میں اسمبلی میں پہنچی۔ حلف انہوں نے بھی اٹھا لیا۔ وہ ایم پی اے تھیں تو میڈیا نے انہیں ایسے ہی دیکھا۔ خدا کی قسم گریس فل ہونا خوبصورت نظر آنے سے بہت اچھا ہوتا ہے۔
آج مجھے بشریٰ رحمان یاد آ رہی ہیں۔ وہ ہماری کولیگ کالم نگار ہیں۔ وہ بہت خوبصورت لکھتی ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ خطیبہ، ادیبہ، قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کے لئے آواز اٹھائی، اے این پی کے ممبران اسمبلی اس کے سامنے بے بس ہو گئے۔ مردوں میں ایک ایم این اے حافظ حسین احمد تھے۔ اس سخت مذہبی آدمی کے جملے پورے ایوان کو کشت زعفران بنا دیتے ۔ انہیں بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ممبران اسمبلی بشریٰ رحمان کی خطابت سے بہت متاثر تھے۔ دلیری اور دلبری میں بشریٰ رحمان نے کمال حاصل کیا ہے۔ بشریٰ رحمان کو ٹکٹ کا نہ ملنا افسوسناک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پیپلز پاری اور مسلم لیگ ق کے درمیان جو ٹاس ہوا ہے اگر بشریٰ رحمان کا نام اس میں ہوتا تو قرعہ ان کے نام نکلتا۔ پیپلز پارٹی کے لئے نہ نکلتا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے قومی اسمبلی کے لئے دو دو نشستیں حاصل کی ہیں۔ چار نشستوں پر ایک خاتون ممبر بنتی ہے۔
آخر میں اپنا ایک دکھ بیان کرنا ہے کہ ممبران اسمبلی رجسٹر پر اپنے دستخط کرنے کے لئے آ رہے تھے اور ان میں میں کئی بہت احترام سے خاتون سپیکر فہمیدہ مرزا کو سلام کرتے تھے۔ سپیکر کے طور پر ان کی کارکردگی بہت شاندار اور سب کے لئے قابل قبول تھی۔ جب نواز شریف تشریف لائے تو فہمیدہ مرزا کھڑی ہو گئیں۔ نواز شریف کے لئے ایک عزت مندی دل میں ہے۔ انہوں نے کرپشن سے پاک خوشحال اور خود مختار پاکستان کا وعدہ عوام کے ساتھ کر رکھا ہے۔ سپیکر صاحبہ نواز شریف کے لئے کھڑی ہوئی تھیں تو دوسرے ممبران کے لئے بھی کھڑی ہوتیں۔ نواز شریف بھی صرف ایم این اے ہیں۔ اسمبلی ہال میں عورتوں نے جس طرح نواز شریف کا استقبال کیا یہ ایسے ہی ہے جیسے جلسوں میں استقبال کیا جاتا ہے۔ ان کا استقبال اپنے لیڈر کی طرح کرنا چاہئے تھا۔ وزیراعظم (حکمران) کی طرح ان کے لئے مودب ہونا اور حلف لینا مناسب نہ تھا۔

مزیدخبریں