مری + اسلام آباد (نامہ نگار + وقائع نگار خصوصی + نیٹ نیوز) مسلم لیگ (ن) کے صدر اور نامزد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ (ن) بلوچستان، حلیف جماعتوں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں سے مشاورت کے بعد نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان کا نیا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے جبکہ گورنر بلوچستان کا تعلق پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے ہوگا۔ وہ یہاں محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو، ثناءاللہ زہری سمیت دیگر رہنماﺅں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس سے قبل نوازشریف کی رہائشگاہ پر بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے اجلاس ہوا جس میں محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو ، ثناءاللہ زہری، سردار یعقوب ناصر، چنگیز مری سمیت دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی۔ یہ مشاورتی اجلاس کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں اتفاق رائے سے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نواز شریف نے اعلان کیا صوبہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے اتحادی امیدوار جماعت نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک ہوں گے۔ مری میں مشترکہ میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا صوبے میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ صوبے میں نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ کے عہدے کے امیدوار ہوں گے اور گورنر کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اس بات پر بہت خوش ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا جو وقت آیا، اس میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مزید کریں گے۔ یہ بلوچستان کی یکجہتی کیلئے اور حالات کی بہتری کے لئے پہلا قدم ہے۔ اس کے علاوہ یہ طے پایا ہے کہ صوبے میں شفاف حکومت ہو گی، میرٹ اور انصاف کی حکمرانی ہوگی، ہمارا اتحاد کریشن کی اجازت نہیں دیگا۔ نواز شریف نے کہا بلوچستان میں گزشتہ کئی سال سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، ہمارا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ہم ماضی کسی کو بھی دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور تو آج وہاں تبدیلی لا کر رہیں گے۔ صوبے میں اچھی طرز حکمرانی قائم کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار کیلئے نہیں اقدار کی سیاست کرتی ہے، اس کا عملی نمونہ پیش کردیا ہے۔ ہم بلوچستان کی ترقی کیلئے سب کو ساتھ لیکر چلیں گے، سپیکر سمیت اب بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہی ہوں گے۔ آمریت نے قوم کو بہت زخم لگائے، ملک کو تباہ و برباد کیا، یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے ہم سب ایک ساتھ ہیں، پالیسیاں منتخب حکومت بناتی ہیں، سب ادارے حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ آج اگر مشرف جیل میں ہے تو میں بھی مری میں ہی ایک سرونٹ کوارٹر میں قید رہا ہوں۔ یہ بلوچستان کیلئے بڑی خوشی کا دن ہے بلوچستان کی وہ تمام قوتیں جو انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے آئی ہیں اور جنہوں نے آمریت کیخلاف، جمہوریت کی بحالی اور استحکام، قانون و آئین کی مکمل عملداری کیلئے جدوجہد کی وہ میرے دائیں اور بائیں کھڑی ہیں، اسکے باوجود کہ مسلم لیگ (ن) نے ثناءاللہ زہری کی قیادت میں صوبے کی سب سے بڑی جماعت بننے میں کامیابی حاصل کی، ہمارے علاوہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی بھی بڑی جماعتیں بن کر سامنے آئیں۔ مسلم لیگ (ن) میں آزاد امیدواروں کی اکثریت بھی شامل ہوئی، ہم چاہتے تو اپنی حکومت بنا سکتے تھے لیکن ہم جو کہتے رہے اسے سچ ثابت کر نے کیلئے ہم نے ایثار کے جذبہ سے کام لیا اور ہم نے مشاورت کے ساتھ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو صوبے کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ نوازشریف نے بلوچستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر ثناءاللہ زہری کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا انہوں نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں، اب بھی انہوں نے جس جذبہ ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ بلوچستان شاد باد ہوتا ہے ہمیں اس سے زیادہ اور کیا خوشی ہوگی۔ انہوں نے اس فیصلے کو بلوچستان کی یکجہتی اور وسیع تر مفاد کیلئے پہلا قدم قرار دیا، بلوچستان میں ابھی تک جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اسے قوم دیکھ رہی ہے۔ یہ ہمارا مشترکہ فیصلہ ہے کہ اب کسی کو ماضی کو دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس کے خلاف ہم نے آواز بلند کی اور اب ہم ہی تبدیلی لا کر رہیں گے۔ صوبے میں گڈ گورننس کے ذریعے مضبوط حکومت قائم ہو گی جسے مرکز کی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔ نوازشریف سے جب بلوچستان اسمبلی کے آئندہ سپیکر بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ بلوچستان میں ہوگا۔ اب بلوچستان کے فیصلے وہیں ہوا کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان کو بلوچستان اور مرکز میں حکومت میں شامل کرنے بارے سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہا مولانا فضل الرحمان ہمارے ساتھی ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان کافی دنوں سے بات چیت چل رہی ہے ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، بلوچستان میں سب کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی امن قائم ہو گا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی نے کہا 70/60 سال سے یہی الزام تھا کہ بلوچ اور پشتون پنجاب سے شاکی ہیں۔ پنجاب سے منتخب قومی نمائندے جسے اکثریت حاصل ہے، نے ثابت کردیا ہے اب پنجاب سے کوئی شکایت نہیں۔ پنجاب کا رویہ انتہائی جمہوری ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ جمہوری پاکستان کی تشکیل چاہتا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرپشن کی بیخ کنی قومی ایجنڈا ہے، ملکر اس بارے جنگ لڑیں گے، وہ ایک قدم اٹھائیں گے بلوچ اور پشتون دو قدم اٹھائیں گے۔ پنجاب کی رہبری میں جمہوری پاکستان کی تشکیل کی شروعات ہو گئی ہے۔ طاقت کا سرچشمہ جمہوری قوتیں ہیں اور پنجاب نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دو گلاس لسی اور ایک روٹی پر گزارہ کرنیوالے لوگ ہیں، یہ مل جائے تو شکر ادا کرتے ہیں۔ پنجاب نے مثبت رویہ اختیار کیا، جمہوری پاکستان کی بات کی ہے۔ قوموں کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لیا ہے، بہتری ضروری آئیگی۔ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا متحد ہو کر آگے بڑھیں گے، نئے جمہوری کلچر کی شروعات ہے، کسی صورت بلوچستان میں کرپشن نہیں ہونے دینگے۔ بلوچستان میں گزشتہ دس سال کے دوران جو کچھ ہوتا رہا اب نہیں ہونے دینگے۔ کرپٹ عناصر کو بلوچستان میں نہیں رہنے دینگے۔ ایک سوال کے جواب میں محمود خان اچکزئی نے کہا پشتون اور بلوچ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں۔ میر حاصل بزنجو نے کہا چھوٹی قوموں کو ساتھ لیکر چلنے کا کام پنجاب صرف میاں نواز شریف ہی کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو بلوچستان کا وزیراعلی بنانے کے فیصلہ پر نوازشریف کے شکرگزار ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں گزشتہ دس سال سے مسخ شدہ نعشیں ملنے، لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ ختم ہوجائیگا۔ بلوچستان کے چند بنیادی مسائل حل کردئیے گئے تو بلوچستان پاکستان کا اٹوٹ انگ رہیگا۔ نوازشریف سے صوبے کو کرپشن فری بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ثناءاللہ زہری نے کہا میاں صاحب نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ نواز شریف کے ویژن پر پورا اترینگے، بلوچستان میں بدامنی اور کرپشن کا خاتمہ کرینگے۔ دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج نواز شریف کی زیرصدارت ہو گا۔ پارلیمنٹ میں ہونے والا یہ اجلاس صبح 10بجے شروع ہو گا۔ اجلاس میں قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب سے متعلق حکمت عملی بنائی جائیگی۔ اجلاس میں شرکت کےلئے شہباز شریف بھی اسلام آباد آئیں گے۔ اجلاس پارلیمنٹ کی کمیٹی روم نمبر 2 میں ہوگا۔ اجلاس میں حکومت سازی سے متعلق اہم امور پر غور کیا جائیگا۔ کوئٹہ (بیورو رپورٹ+ آن لائن) بلوچستان کی دسویں منتخب اسمبلی میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ15ویں قائد ایوان ہوںگے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور صدارتی فرمان کے تحت 1972ءمیں بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی عام انتخابات کے بعد سردار عطاءاللہ مینگل پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماءاسلام(مفتی گروپ) کے اتحاد سے بننے والی مخلوط حکومت 9 ماہ قائم رہ سکی، 10مارچ1978ءکے انتخابات میں پی بی 16سبی ون سے منتخب ہونے والے سردار محمد خان باروزئی کو قائد ایوان بنایا گیا اور انکی حکومت3 ماہ 24روز تک برقرار رہی 1985ءکے عام انتخابات کے بعد 12مارچ کو بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی اور جام میر غلام قادر کو قائد ایوان منتخب کیا گیااور وہ 29مئی1988ءتک وزیر اعلیٰ رہے۔ بلوچستان کی چوتھی اسمبلی26نومبر1988ءکو وجود میں آئی جس میں 22دن تک سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی وزیراعلیٰ رہے اور اکثریت ثابت نہ کرنے پر انکی حکومت ختم کر دی گئی اور5 فروری 1989ءکو نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ منتخب کئے گئے وہ 7اگست1990ءتک وزیر اعلیٰ رہے1990ءکے عام انتخابات کے بعد17نومبر 1990ءکو میر تاج محمد جمالی کو وزارت اعلیٰ کا تاج پہنایا گیا، وہ22مئی 1993ءتک وزیر اعلیٰ رہے اور انکے بعد 30مئی سے19 اگست1993ءتک نواب ذوالفقار علی مگسی کو وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا1993ءکے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر نواب ذوالفقار علی مگسی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور 8 مارچ1996ءتک وزیر اعلیٰ رہے22فروری 1997ءکو سردار اختر مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور وہ 31مارچ 1998ءتک وزیر اعلیٰ رہے31اگست 1998ءکو میر جان محمد جمالی کو قائد ایوان منتخب کیا گیا 14اکتوبر1999ءتک وزیراعلیٰ رہے یکم دسمبر2002ءکو جام محمد یوسف وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور 19نومبر2007ءتک وزیر اعلیٰ رہے نواب محمد اسلم رئیسانی نے9اپریل 2008ء قائد ایوان کی حیثیت سے حلف لیا اور وہ 4سال 10ماہ تک وزیر اعلیٰ رہے گورنر راج کے نفاذ خیمہ نما اسمبلی 14قائد ایوان دیکھ چکی ہے اور اب دسویں اسمبلی منتخب ہو کر آئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے پر تربت سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جشن منایا گیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔