قوم کی نظریں عدلیہ پر لگی ہیں : جسٹس افتخار ۔۔۔ شکایات پر میانوالی جیل کا دورہ‘ موقع پر احکامات

میانوالی (نمائندگان+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سنٹرل جیل میانوالی کے دورہ کے سلسلہ میں کینال ریسٹ ہاﺅس میانوالی پہنچے تو وہاں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور پنجاب کے اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر پولیس کے دستے نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ ریسٹ ہاﺅس میں چند منٹوں کیلئے ڈسٹرکٹ بار میانوالی اور پنجاب کے اعلیٰ افسران نے مہمان خصوصی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ہاتھ ملایا اس کے فوراً بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سنٹرل جیل میانوالی پہنچے جہاں جیل پولیس کے دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ معلوم ہوا چیف جسٹس سیدھے جیل کے اندر قیدیوں اور حوالاتیوں کے پاس تشریف لے گئے۔ بتایا گیا ہے سنٹرل جیل میانوالی کے ایک سو سے زائد قیدیوں اور حوالاتیوں نے سنٹرل جیل میانوالی حکام اور اہلکاران کے خلاف ایک سو سے زائد خطوط لکھے تھے۔ ان خطوط کی روشنی میں چیف جسٹس نے قیدیوں اور حوالاتیوں کی شکایات اور مشکلات خود سننے کی اطلاعات ہیں۔ چیف جسٹس دن پونے بارہ سے چھ بجے شام تک سنٹرل جیل میانوالی میں رہے۔ بتایا گیا ہے انہوں نے قیدیوں اور حوالاتیوں کی لکھی شکایات کی خود سماعت کی۔ قبل ازیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اسلام آباد سے تلہ گنگ روڈ کے راستے میانوالی کینال ریسٹ 11بج کر 31منٹ پر پہنچے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے سنٹرل جیل کے دورہ کے موقع پر پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کو اندر جانے پر مکمل پابندی تھی۔ میڈیا کا کوئی شخص اندر نہ جا سکا۔ قیدیوں اور حوالاتیوں کی شکایات سننے کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میانوالی، ہوم سیکرٹری اور عدلیہ کے دیگر حکام بھی ان کے ساتھ موجود رہے۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے میانوالی میں مصروف دن گزارا، کینال ریسٹ ہاﺅس میں وکلا اور انتظامی عہدیداروں نے ان سے ملاقاتیں کیں۔ سینٹرل جیل میانوالی پہنچے تو سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ چیف جسٹس نے جیل میں قیدیوں کے مسائل سنے اور موقع پر احکامات جاری کئے۔ این این آئی کے مطابق جیل سپرنٹنڈنٹ قاضی محمد اسلم نے چیف جسٹس کو جیل سے متعلق بریفنگ دی۔چیف جسٹس نے سنٹرل جیل میانوالی میں ساڑھے چھ گھنٹوں کے معائنہ اور دورہ کے موقع پر قیدیوں اور حوالاتیوں کی شکایات اور مشکلات خود سنیں اور خود ان کی درخواستیں وصول کیں۔ چیف جسٹس نے دیت کے کیس کے پانچ قیدیوں کے ذمے 190800 روپے جرمانہ کی رقم سنٹرل جیل حکام کو ادا کرنے اور ان کی رہائی کا حکم دیا۔ اسی طرح دیت کے ایک اور کیس میں چھ قیدیوں کے ذمے 1394315 روپے جرمانہ پر چیف سیکرٹری پنجاب کو یہ رقم جمع کرانے کی ہدایت کی جب یہ رقم ادا ہو گی ان چھ قیدیوں کو رہائی مل جائے گی۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے خواتین بچوں کی بیرکوں کا بھی دورہ اور معائنہ کیا اور موقع پر احکام جاری کئے اور کھانا بھی خود کھا کر چیک کیا۔ثناءنیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے آزاد عدلیہ قوم کی توقعات پر پورا اتر رہی ہے، پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر لگی ہیں اور ماتحت عدلیہ کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کینال ریسٹ ہاﺅس میانوالی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میانوالی ملک محمد اکرم اعوان اور میانوالی کی ماتحت عدلیہ کے ججز صاحبان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا پوری قوم نے آزاد عدلیہ کی بحالی کے لئے بڑی لازوال اور تاریخی قربانیاں پیش کی ہیں اور آج پوری قوم آزاد عدلیہ کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے، انہوں نے کہاکہ رول آف لاءکی حکمرانی کے لئے ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے، پاکستان کے جس کونے میں بھی کسی مظلوم کے ساتھ ظلم ہوا، عدلیہ مظلوم کا سہارا بنے، انہوں نے کہا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز صاحبان اپنے اضلاع میں جیلوں کے دوروں کو یقینی بنائیں اور قیدیوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، کسی بے گناہ اور معصوم کو ایک دن کے لئے بھی جیل یا حوالات میں نہیں رکھا جا سکتا، انہوں نے کہا ایسے حالات میں ماتحت عدلیہ کی زیادہ ذمہ داری ہے وہ لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے بھرپور کردار ادا کریں، انہوں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میانوالی ملک محمد اکرم اعوان اور ان کے دیگر ساتھی ججز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا جس طرح میانوالی میں پرانے کیسز کو نمٹایا گیا ہے اسی طرح لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا جسٹس افتخار محمد چوہدری پوری قوم کی امیدوں اور تمناﺅں کا مرکز بن چکے ہیں، انہوں نے انصاف کی فراہمی کے لئے ایسے عملی اقدامات کئے ہیں جنہیں پاکستان کی آنیوالی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...