3 جون 1947ء کو آخری برطانوی وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے ہندوستان کے بٹوارے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 1946ء کے الیکشن کے بعد سرزمین ہند کے عوام نے جدوجہد آزادی کو تیز تر کر دیا اور معاملات بھی تیزی سے بدلنے لگے۔ ہندو کانگرس کی کوشش یہ تھی کہ آزادی اور خود مختاری متحدہ ہندوستان کو دی جائے جبکہ قائداعظم اور دیگر مسلمان لیڈروں نے تہہ کر رکھا تھا کہ تقسیم ہند ہو کر رہے گی کیونکہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک پسماندہ قوم کا درجہ ہی مل سکے گا۔ ایک جانب انڈین نیشنل کانگرس اور دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے لگیں اور اسی اثناء میں وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے چارج سنبھال لیا۔ انہوں نے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں سے مذاکرات کئے اور نتائج سے آگاہ کرنے کیلئے لندن روانہ ہو گئے۔ برطانوی حکومت اور وائسرائے کے درمیان برعظیم کی آزادی اور خود مختاری کے بارے میں متعدد متبادل تجاویز اور منصوبوں پر بھی بات چیت ہوتی رہی تاہم اعصاب شکن مذاکرات کے نتیجے میں تقسیم ہند اور آزادی کے بارے میں ایک منصوبے کا خاکہ تیار کر لیا جسے لارڈ مائونٹ بیٹن نے 2 جون کو لندن سے واپس ہندوستان آ کر مسلم لیگ اور کانگرس کے اعلیٰ رہنمائوں کے سامنے بحث کیلئے پیش کر دیا۔ انہوں نے 2 جون ہی کو تمام سینئر سیاسی لیڈروں کا اجلاس بلایا اور ان سے حتمی بات چیت کے بعد اگلے روز یعنی 3 جون کو آل انڈیا ریڈیو سے اپنی نشری تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ایک متحدہ مملکت کی حیثیت سے آزادی دینے کا کوئی فائدہ نہیں لہٰذا مسئلے کا حل دو ریاستوں کا قیام ہی ہے۔ 3 جون کے منصوبے کے اہم نکات میں کہا گیا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں کو یکجا کیا جائیگا تاہم بعض پیچیدگیاں اس سلسلے میں حائل ہیں جنہیں سلجھانے کیلئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر پنجاب اور بنگال کے غیر مسلم اقلیتی اضلاع کے نمائندے چاہیں تو دونوں صوبوں کا بٹوارہ لازمی ہو گا‘ اسکے علاوہ شمال مغربی سرحدی صوبے اور آسام کے مسلم اکثریتی اضلاع میں رائے شماری کے ذریعے عوام سے پوچھا جائیگا کہ وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں۔ 3 جون منصوبے کے کچھ اور نکات بھی ہیں تاہم خاص بات یہ تھی کہ دو سرحداتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو مختلف صوبوں کے آپس میں ملحقہ مسلم اکثریتی اور ہندو اقلیتی اضلاع کی حد بندیوں سے متعلق حتمی رائے دینگے‘ اس طریق کار سے مسلم مملکت کو زبردست نقصانات پہنچائے گئے خصوصاً جب سراحداتی تعین سے متعلق ریڈ کلف ایوارڈ سامنے لایا گیا تو اس نے بے بنیاد حقائق کی بنیاد پر پنجاب میں ضلع گورداس پور اور تحصیل پٹھان کوٹ کی تقسیم میں گھپلے کئے جن کے نتیجے میں پاکستان کا کشمیر سے جغرافیائی رابطہ بھی کٹ گیا اور پاکستان اور بھارت کے مابین مستقل کشیدگی کی فضا آج بھی برقرار ہے۔
تحریک آزادی کا اہم موڑ : جون 3 پلان
Jun 03, 2014