ایک اور پولیس گردی

Jun 03, 2014

خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

پولیس نے گدھا گاڑی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار 31 سالہ دود فروش کو مبینہ طور پر بہمانہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر معاملہ چھپانے کیلئے نعش مقامی قبرستان میں گڑھا کھود کر بغیر کفن دفن کے دبا دی۔ مقتول کے اہل خانہ کو علم ہونے پر پولیس نے گڑھے سے نعش نکال کر غائب کرنے کی کوشش کی تو اہل علاقہ نے دیکھ کر پولیس اہلکاروں کو گھیر لیا اور پھر اعلیٰ افسران کے حکم پر پولیس نے نعش پوسٹ مارٹم کیلئے مردہ خانہ میں جمع کرا دی ہے SP صدر نے واقعہ ملوی ایک ASI کو معطل کر کے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول نشئی تھا اسکی موت نشہ نہ ملنے کے باعث ہوئی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
پنجاب پولیس کی تاریخ اس سے بھی زیادہ بھیانک اور روح کو تڑاپا دینے والے کارناموں سے بھری پڑی ہے اسی لئے تو ہر پنجاب حکومت کو اپنی پولیس پر ناز اور فخر رہا ہے اور پنجاب پولیس کے کسی متنازعہ واقعہ کو بھی ’’بہادری‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذکورہ واقعہ چونکہ میرے علاقے میں رونما ہوا ہے اسی لئے اس واقعے اور سبزہ زار پولیس کی مختصر تاریخ کو کالم کا حصہ بنانے پر مجبور ہوں۔ ماضی قریب تک میں سبزہ زار اور اسکے تھانے کے اندر رونما ہونیوالے مکروہ واقعات کو منظر عام پر لاتا رہا ہوں اس امید پر کوئی شائد کسی باضمیر کو میری باتیں متاثر کر پائیں میں نے تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیا تھا کہ ’’چیف منسٹر صاحب! سبزہ زار یقیناً شریف برداران کی تخلیق ہے مگر آپ ہی کے چند چہیتوں نے اسے گندا بلکہ غلیظ تر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسی لئے میں اسے سبزہ زار نہیں جرائمستان کا نام دیتا ہوں۔ خادم پنجاب نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر یہ بات نہایت دکھ کے ساتھ بیان کرنی پڑ رہی ہے کہ خادم پنجاب کی ٹیم میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں نے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دے کر باس کو مطمئن کر دیا۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اس علاقے میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتا کہ حکومت کے شیر اس باضمیر مجسٹریٹ کو مار بھگاتے ہیں جو اشیائے خوردنوش کی قیمتیں چیک کرنے کیلئے یہاں آتا ہے۔ہماری سوسائٹی میں پایا جانیوالا وہ کونسا جرائم ہے جو یہاں کے مقتدر طبقوں اور پولیس کی ناک تلے نہیں ہو رہا۔ علاقے میں موجود ہر جرم کی پیٹھ پر ایک نہ ایک منتخب نمائندہ مقتدر شخص یا پولیس بیٹھی ہوئی نظر آتی ہے۔ دن دیہاڑے راہ گیروں اور مکینوں کو لوٹا جانے لگا ہے اور یہ سب کچھ سبزہ زار پولیس کی کوتاہی یا اجازت سے ہو رہا ہے اس سچ میں تو شائد شک کی گنجائش نہیں کہ تھانہ سبزہ زار کا شمار بھی شہر کے بکنے والے تھانوں میں ہوتا ہے یہاں تعینات ہونے کیلئے اعلیٰ حکام کی مٹھیاں گرم کرنی پڑتی ہیں اور ظاہر ہے کہ رشوت دے کر آنیوالا اپنی رقم پوری بلکہ دگنی چوگنی کرنے کیلئے کیا کیا گل کھلائے گا۔
کسی بے گناہ دودھ والے کو تشدد کا نشانہ بنا کر جان سے مار دینے والا واقعہ یہاں کے مکینوں کیلئے انوکھا نہیں کیونکہ سبزہ زار تھانے کو بندے مار تھانے کا نام دیا جاتا رہا ہے شروع شروع میں تھانہ سبزہ زار جعلی پولیس مقابلوں کیلئے مشہور تھا لاہور پولیس نے اگر کسی ملزم سے جان چھڑانی ہوتی تو اسے تھانہ سبزہ زار کے باہر لا کر مار دیا جاتا۔ اور اس ہلاکت اور قتل کو پولیس مقابلے کا نام دے دیا جاتا۔ بے شمار ڈکیتی وارداتوں میں مطلوب دو نوجوان ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں جرائم کا اعتراف و اقرار بھی کر لیتے ہیں مگر انہیں بعض مقتدر افراد کے کہنے پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ ڈاکو اور ان کا گروہ آج بھی گلی کوچوں میں راہ گیروں اور مکینوں کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ پولیس نے 31 سالہ دودھ فروش کو اندھے تشدد سے قتل کر کے اسکی نعش ایک گڑھے میں چھپا دی وزیر اعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کر لی ہے ایک تو مجھے اپنے پیارے شہباز شریف پر ترس آنے گا ہے کہ کلی کلی جان دکھ لکھ تے کروڑ میرا خیال ہے کہ اب تو انہیں بھی یاد نہیں ہو گا۔ کہ وہ کس کس کے واقعے کا نوٹس لے چکے ہوئے ہیں اور کس کس واقعے کی انکوائری رپورٹ ان تک پہنچی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ تک اصل رپورٹیں جاتی ہونگی اول تو رپورٹیں فائلوں ہی میں دبا دی جاتی ہیں اگر کوئی رپورٹ وزیر اعلیٰ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو وزیر اعلیٰ اس قدر مصروف ہیں کہ انکے پاس مانگی گئی رپورٹ دیکھنے کا وقت ہی نہیں کہتے ہیں کہ پولیس نے دودھ فروش مقتول کی نعش پوسٹ مارٹم کیلئے مردہ خانے بھجوا دی ہے تو کیا ہمیں امید رکھنی چاہئیے کہ مقتول کے لواحقین کو انصاف مل پائے گا یقیناً نہیں۔ آخر میں چند باتیں اپنے پیارے شہباز شریف کیلئے جناب آپ ہر ہونیوالی واردات اور زیادتی کا نوٹس لے لیتے ہیں۔ کبھی آپ نے پلٹ کر دیکھا کہ آپکے کہے ہوئے یا آپکے حکم پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔

مزیدخبریں