قائداعظمؒ کو اسلام سے اس قدر لگائو تھا کہ بڑے سے بڑے موقع پر آپ نے اپنی محبت کو رسول خدا اور اسلام کے اصولوں کے تابع رکھا۔ 14 اگست 1947ء کو جب آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں جناحؒ کو پہلے گورنر جنرل آف پاکستان کے طورپر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کیلئے اکبر کا طریقہ اپنائیں تو آپ نے فرمایا کہ اکبر کل کی بات ہے ہم تو محمد مصطفیٰؐ کے پیرو کار ہیں۔ جنہوں نے 1400 سال قبل مدینہ میں یہود اور عیسائیوں کیساتھ انکے مذہب اور عقائد کے مطابق نہایت انصاف کیا آپ نے کہا اسلام ہمیں ٹالرنس سکھاتا ہے۔ اتنے بڑے مجمع میں انگریزی طاقت کے سربراہ کو ایسا اسلامی جذبے سے معمور جواب صرف جناحؒ ہی دے سکتا تھا جس کے سینے میں اسلام کی روشنی اور حضور اکرمؐ سے حقیقی محبت تھی۔ یہ وہی چنگاری تھی جس کے ذریعے پاکستان حاصل ہوا۔ آپ نے فروری 1948ء میں ریاست ہائے متحدہ کی براڈکاسٹنگ کمپنی کیلئے آئین پاکستان کے بارے میں بیان دیا’’ مجھے علم نہیں ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی مستقبل میں کیا آئین تشکیل دیتی ہے کیونکہ آئین سازی ابھی ہونی ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ آئین جمہوری طرز حکومت کا حامل ہو گا جس میں اسلام کے سنہرے اصول انصاف‘ مساوات ہونگے۔ اسلام کے اصول آجبھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح 1400 سال پہلے اسلام نے بتائے۔
اسلام ہمیں جمہوری روایات سکھاتا ہے۔ ہماری وراثت میں اسلام کے لازوال سنہرے اصول ہیں‘ اس لئے ہم اپنے آئین کے بارے میں بے خبر نہیں ہیں پاکستان میں ملائیت نہیں ہوگی کیونکہ اس کی سر زمین میں غیر مسلم عیسائی‘ ہندو‘ سکھ اور دیگر قومیں آباد ہیں تمام پاکستان ہیں۔ ‘‘ آپ نے ہمیشہ شہریوں کے حقوق کی بات کی۔ 3 جون 1947ء کے روز ہر مسلمان کیفیت کے اعتبار سے مختلف تھا۔ اس دن ایک شاندار مستقبل سامنے تھا۔ اس سے قبل آزادی وطن ایک خواب تھا۔ لیکن قائداعظمؒ کی سیاست آفرینی‘ باریک بینی اور آپ کے وکالت کے شعبہ میں دلائل اور حقائق کو بیان کرنے کے اسلوب سے مسلمانوں کو پاکستان نصیب ہوا۔ قائداعظم کا اعتقاد بڑا پختہ تھا اور انہیں اللہ کی عظمت و کبریائی پر یقین تھا۔ قائداعظمؒ کے دل میں محمد رسول اللہؐ کی عظمت کے احساسات اور جذبات تھے وہ بڑے محنتی تھے۔ اپنے خواب کی تعبیر کیلئے ہمہ وقت کام میں مصروف رہتے تھے وہ 3 جون کو مسرور بھی تھے اور مصروف بھی۔ اس وقت انگریزی کی خبریں پڑھنے والے تین انائونسر تھے۔ سینئر کنوبی کلارک تھا جس کو وائسرائے ہند اور قائداعظم کے تعارف کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔ اعجاز احمد نے پنڈت نہرو اور ڈی میلو نے بلدیو سنگھ کا تعارف کرایا۔ اعجاز احمد کہتے ہیں۔ ’’قائداعظمؒ سٹوڈیو تھری میں تشریف فرما تھے۔ جب ہم نے شیشے سے جھانکا تو قائداعظمؒ ایک صفحے پر کچھ تحریر کر رہے تھے اور بڑے بڑے واضح حروف میں لکھے جارہے تھے کسی کو عمل نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں کوئی تقریر لکھنے میں منہمک تھے۔‘‘
اعجاز احمد محبت کے مارے کمرے میں چلا گیا۔ قائداعظمؒ نے مڑ کر اسے دیکھا وہ نزدیک بیٹھ گیا۔ وہ شخص خوش قسمت تھا کہ مسلمانوں کی تاریخ کے بڑے ہیرو کے پاس بیٹھا ہے اور پاکستان بننے کی امید قریب آ لگی تھی۔ وہ تقریر لکھنے میں مصروف تھے اور بغیر ادھر ادھر توجہ کئے اپنا لکھا ہوا سکرپٹ پڑھ رہے تھے کیونکہ انہوں نے وہ ریڈیو سے کروڑوں انسانوں کے سامنے پڑھنا تھا۔ اپنا سکرپٹ مکمل کرنے کے بعد آخر میں دو الفاظ تحریک کئے۔ پاکستان زندہ باد یہ الفاظ لکھنے کے بعد جب انہوں نے پڑھا تو انکے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ قائداعظمؒ کی تقریر دس منٹ تک رہی انکی آواز ہالی وڈ کے مشہور اداکار ’’رونالڈ کال‘‘ جیسی تھی۔ آپ نے تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا ایسا نعرہ لگایا جو دنیا میں گونج اُٹھا۔
آل انڈیا ریڈیو سے قائداعظمؒ کی تاریخی تقریر
Jun 03, 2014