اسلام آباد (عترت جعفری+ نمائندہ خصوصی) وفاقی حکومت نے مالی سال کے دوران مختلف ٹیکس رعایات دے کر 477بلین روپے ریونیو نقصان اٹھایا۔ انکم ٹیکس میں 96.6بلین روپے‘ سیلز ٹیکس کی مد میں230بلین روپے کے ٹیکس رعایات دی گئیں۔ کسٹمز کی مد میں یہ 131.4بلین روپے کی رعایات دی گئیں۔ جولائی تا اپریل کے عرصہ میں تجارتی خسارہ میں 2.8فیصد کا اضافہ ہوا۔ سروے کے مطابق سندھ کے پی کے اور بلوچستان میں تعلیمی اندراج کی شرح بہتر رہی۔ پنجاب میں یہ شرح 98فیصد پر مستحکم رہی جبکہ سندھ میں81فیصد اور بلوچستان میں70فیصد رہیں جبکہ کے پی کے میں یہ شرح91فیصد رہی جو گزشتہ سال کے مقابلہ میں بہتری ہے۔ملک کے اندر 1096 ہسپتال 5310 ڈسپنسریاں ہیں۔ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 67ہزار 759 دندان ساز 13ہزار 716ہیں۔ ملک کی آبادی میں 1099افراد کے لئے ایک ڈاکٹر‘ 13ہزار 441افراد کے لئے ایک دندان ساز اور 1647افراد کے لئے ہسپتال کا ایک بستر دستیاب ہے۔ ملک کی آبادی کی شرح میں بہتری آئی۔یہ 1.97فیصد سے کم ہوکر 1.95فیصد ہوگئی۔ ملک کی آبادی کا تخمینہ 188ملین ہے۔ عورتوں کی اوسط عمر 66.5سال سے بڑھ کر 66.9 سال اور مردوں کی اوسط عمر 64.6سال سے بڑھ کر 64.9سال ہوگئی۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 66.1فی ہزار ہے۔ ملک کے اندر سڑکوں کی لمبائی 2لاکھ 63ہزار 775 کلومیٹر ہے۔ ریلوے کا نظام 7791کلومیٹر ہے۔423ریلوے انجن ہیں۔1700مسافرکوچیں ہیں۔ملک کے اندر 136.5ملین لوگ موبائل فون کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں۔پاکستان کے ذمہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 15ہزار 534 بلین روپے ہوگیا۔اس میں سے 10ہزار 823 بلین روپے کے اندرونی قرضے ہیں جبکہ 4ہزار 711بلین روپے کے غیر ملکی قرضے ہیں۔ اندرونی قرضے جی ڈی پی کے حساب سے 42.6فیصد اور بیرونی قرضے 18.5فیصد ہیں جبکہ مجموعی قرضے جی ڈی پی کے 61.2کے مساوی ہیں۔اندرونی قرضوں میں رواں مالی سال کے دوران 1168بلین روپے کا اضافہ ہوا۔اندرونی قرضوں کی ڈیٹ سروسنگ کے بل میں بھی رواں مالی سال میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال 725بلین روپے اندرونی قرضوں کی سروسنگ پر خرچ ہوئے جبکہ موجودہ مالی سال میں 855بلین روپے خرچ کرنا پڑے۔ملک کے اندر 55.6ٹریلین کیوبک فٹ کے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے۔اقتصادی سروے میں ملک کے اندر غربت کے لئے 12.4 فیصد بتائی گئی ہے جو محل نظر ہے اور وفاقی وزیر خزانہ نے خود تسلیم کیا کہ اگر 2 ڈالر روزانہ کی آمدن کو بنیاد بنایا جائے تو ملک میں غربت کی سطح 60.19 فیصد بن جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ حکومت تخفیف غربت کے لئے جو اقدامات کر رہی ہے ان کے تحت 2013-14ء میں 588 بلین روپے کے اخراجات کئے گئے جبکہ بی آئی ایس پی کے تحت رقوم اس کے علاوہ ہیں۔ ہزاری کے اہداف کے تحت 2015ء میں اس کے لئے 13 فیصد کرنا ضروری ہے۔ پریس کانفرنس میں سینیٹر اسحاق ڈار نے شکوہ کیا کہ میڈیا نے گزشتہ روز معاشی اہداف حاصل نہ کرنے کی خبریں دی اور کہا کہ ہم نے ٹارگٹ سخت رکھے تھے۔ اہداف نرم رکھتے تو حاصل ہو جاتے۔ وزیر خزانہ نے نام لئے بغیر تحریک انصاف کے جلسوں کا ذکر کیا اور کہا کہ چار جگہوں پر جلسے کرنے سے مینڈیٹ ختم نہیں ہو گا۔ سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ذکر بھی پریس کانفرنس میں ہوا اور وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ رقم مالیاتی خسارہ میں کمی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جب غیرملکی اہم مہمانوں کو کرولا میں بٹھائیں گے تو پھر ڈیڑھ ارب ڈالر تو نہیں آتے۔ وزیر خزانہ دراصل ان دو بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کا ذکر کر رہے تھے جو حال میں درآمد کی گئیں اور ان کا استعمال غیرملکی مہمانوں کے لئے بتایا گیا ہے۔ کراچی کے سرکلر ریلوے منصوبے کا ذکر بھی ہوا۔ ہم نے دیامیر میں بھاشا ڈیم بنانا ہے وزیراعظم پہلے جا کر تختی نہیں لگاتے بلکہ ہم پہلے منصوبے کا فنانشل کلوز کرتے ہیں۔ پریس کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جو سیکرٹری خزانہ نے کی۔
حکومت نے ٹیکس رعایتیں دیکر477 ارب ریونیو کا نقصان اٹھایا، معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کی خبروں پر وزیرخزانہ کا میڈیا سے شکوہ
Jun 03, 2014