وفاقی وزیر کے "Status" اور مراعات یافتہ گذشتہ 6 سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے گذشتہ 10 سال میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے 8 ہزار افسران اور جوانوں سمیت معصوم اور بے گناہ پاکستانیوںکی تعداد 55 ہزار بتائی ہے اور ان سب کو ’’شہید‘‘ بھی تسلیم کر لِیا ہے۔ مولانا صاحب کا یہ بیان اُن کے سابقہ مؤقف سے یکسر مختلف ہے۔ 3 جولائی2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد اور اُس سے مُلحقہ مدرسے جامعہ حفصہ میں پاک فوج کے آپریشن کے بعد 12جولائی کو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے (اُن دِنوں فعال اور مُتحرّک) مُتحدہ مجلسِ عمل کے صدر امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد (مرحوم) سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت عُلماء اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا تھا کہ ’’لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسران اور جوانوں کو ’’شہید‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
’’طالبان کا باپ‘‘ کہلانے والے مولانا سمیع الحق اور جماعتِ اسلامی کے سابق امیر سیّد مُنّور حسن کا بھی یہی مؤقف رہا ہے۔ یکم نومبر 2013ء کو طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہُوا تو اِن تینوں رہنمائوں نے آسمان سر پر اُٹھا لِیا تھا اور حکیم اللہ محسود کو ’’شہادت‘‘ کے مرتبے پر فائز کر دِیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر سوگ منایا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے فرمایا کہ ’’امریکہ کے ہاتھوں اگر کوئی کُتّا بھی مارا جائے تو مَیں اُسے بھی شہید کہوں گا۔‘‘ 10 نومبر 2013ء کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ پریس ریلیز میں سیّد مُنّور حسن کی طرف سے دہشت گردوں کو شہید قرار دینے اور اُن کے خلاف لڑتے ہُوئے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے بارے میں سیّد مُنّور حسن کی طرف سے یہ کہنے پر کہ ’’مَیں اُنہیں شہید نہیں سمجھتا‘‘ پُرزور مذمت کی گئی اور آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا گیا کہ ’’سیّد منور حسن نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجی افسران اور بے گناہ اور معصوم شہریوں کی توہین کی ہے۔‘‘
سیّد مُنّور حسن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ وزیرِاعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے شہیدوں کی قبروں پر کئی بار پھُول چڑھائے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی ہر چوتھے دِن عوام وخواص کی ڈھارس بندھانے کے لئے اعلان کر دیتے ہیں کہ ’’پاک فوج پاکستان کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو سبق سِکھانے کے لئے تیار ہے۔‘‘ لیکن فوج دہشت گردوں کو سبق کیسے اورکب سِکھائے گی؟ اِس کا فیصلہ تو جنابِ وزیرِاعظم کو ہی کرنا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل پرویز کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف نے بہت ہی قوتِ برداشت کا مظاہرہ کِیا ہے وگرنہ پاک فوج کے افسران اور جوانوں کے دھڑوں سے اُن کے سروںکو الگ کرنے کے بعد اُن سے فُٹ بال کھیلنے والے دہشت گردوں کو اور اُن کی آئندہ نسلوں کو سبق کیوں نہیں سِکھایا جا سکتا؟
مولانا سمیع الحق اور امیر جماعتِ اسلامی جناب سِراج الحق کے 2 جون کو شائع ہونے والے بیانات میں بھی طالبان اور حکومت میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری وزیرِاعظم نواز شریف اور اُن کی حکومت پر ڈال دی گئی ہے۔ مولانا سمیع الحق فرماتے ہیں کہ ’’طالبان سے مذاکرات میں ’’ خُفیہ ہاتھ‘‘ رکاوٹ ڈال رہا ہے اور فوج نے طالبان کے خلاف خُفیہ اور غیر اعلانیہ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔‘‘ جناب سِراج الحق نے حُکم دِیا ہے کہ ’’وزیرِاعظم نواز شریف خُود شمالی اور جنوبی وزیرستان کا دَورہ کریں کیونکہ حکومت نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر آپریشن شروع کر کے عالمی طاقتوں کو پاکستان کے خلاف جاری گریٹ گیم کو کامیابی کی راہ دِکھائی ہے۔‘‘ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز نے 6 اپریل 2007ء کو خُود ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے اپنے چھوٹے بھائی غازی عبدالرشید کو ’’نائب امیر المومنین‘‘ مقرر کر کے جب پورے مُلک میں نفاذِ اسلام اور لال مسجد میں شریعت کورٹ قائم کرنے کا اعلان کِیا تھا تو وفاقی حکومت کو یہ وارننگ دی تھی کہ ’’اگر اُس نے ایک ماہ کے دوران شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور لال مسجد اور اُس سے مُلحقہ مدرسے، جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کے خلاف کارروائی کی کوشش کی تو اُس کے جواب میں پُورے مُلک میں فدائی حملے ہوں گے۔‘‘
بعد ازاں 15 اپریل 2007ء کو روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’ خُفیہ اداروں نے حکومت کو خبردار کِیا ہے کہ اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف کارروائی کی گئی تو پورے پاکستان میںخودکُش حملے ہو سکتے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’لال مسجد والوں کے بَیت اللہ محسود سے روابط ہیں۔ مولانا عبدالعزیز اب مسجد کے ملازم خطیب نہیں ہیں لیکن مسجد پر اُن کا قبضہ ہے۔ اُن کی نگرانی میں 17 مدرسے چل رہے ہیں۔ اُن کے اخراجات کون پورے کرتا ہے؟ مولانا علی الاعلان کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے۔ مَیں اِسے نہیں مانتا۔‘‘ وہ آئے دِن ٹی وی پر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کر کے اور ’’امیر اُلمومنین‘‘ بن کر پاکستان کو خلافت کا مرکز بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔کسی کو بھی جُرأت نہیں کہ اُن کی زبان بندی کرے۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اسلام آباد میں دھماکوں سے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ ’’ہم اسلام آباد کو حقیقی معنوں میں اسلام آباد بنائیں گے۔ طالبان کے سربراہ مُلّا فضل اللہ بار بارا علان کر رہے ہیں کہ ’’میرا مِشن شریعت نافذ کرنا ہے۔‘‘ 2 جون کو تحریکِ طالبان حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان حاجی دائو مسعود کا بیان میڈیا کی زینت بنا جِس میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت سنجیدگی دِکھائے تو ہم جنوبی وزیرستان میں بات چِیت کے ذریعے امن لانے کو تیار ہیں لیکن مُلّا فضل اللہ کی قیادت میں شریعت کے نفاذ تک ہماری جنگ جاری رہے گی۔‘‘ وزیرِاعظم نواز شریف نے ستمبر 2013ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیویارک جاتے ہُوئے لندن میں کہا تھا کہ ’’مذاکرات صِرف ہتھیار ڈالنے اور آئینِ پاکستان کو تسلیم کرنے والے گروپوں سے ہوں گے۔‘‘ پھِر یہ شرط کیوں ختم کر دی گئی؟
قائدِاعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ خُدا کی قسم! جب تک ہمارے دُشمن ہمیں اُٹھا کر بحیرۂ عرب میں نہ پھینک دیں ہم ہار نہیں مانیں گے۔ پاکستان کی حفاظت کے لئے مَیں تنہا لڑوں گا۔‘‘ قائدِاعظمؒ کا یہ اعلان پاکستان کے ا زلی دُشمن بھارت کے خلاف تھا۔ اگر اُس دَور میں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپ ہوتے تو قائدِاعظمؒ اُن کے خلاف بھی لڑنے کا اعلان کرتے۔ بانیٔ پاکستان کو اگر بھارت کے ہِندو لیڈروں سے ’’امن کی آشا‘‘ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے لئے الگ وطن کیوں بناتے؟ پھِر قائدِاعظمؒ کی وراثت مسلم لیگ کے قائد کو بھارت سے ’’امن کی آشا‘‘ کیوں ہے؟ اور ہمارے 55 ہزار پیاروں کے قاتلوں سے بھی؟
طالبان سے بھی ’’امن کی آشا؟‘‘
Jun 03, 2014