اسلامی نظریاتی کونسل اور قانونِ وراثت

اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ ’’خواجہ سراؤں کو خاندان میں شامل اور جائیداد میں حصہ دیا جائے‘‘ فقہ نے واضح طور پر وراثت کا قانون انسانی جنس کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ فقہ میں تین جنسیں شمار ہوتی ہیں۔ مرد، عورت اور تیسری جنس۔ تیسری جنس کے متعلق حکم یہ ہے کہ اس کی وراثت کو طے کرنے کے لیے یہ معلو م کیا جائے کہ وہ پیشاب مردوں کی طرح یا خواتین کی طرح کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی وراثتی حیثیت لڑکا، لڑکی، بھائی یا بہن جتنا تصور ہو گا۔
ادارہ معارف اسلامی (منصورہ لاہور) نے فقہ حضرت عمرؓ کتاب شائع کی۔ اس کے صفحہ نمبر 53پر لکھا ہے۔ ’’حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مخنث کو میراث دیتے وقت اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وہ پیشاب کیسے کرتا ہے‘‘ محمد بن عمر المدائنی نے اپنی کتاب ’’القلم و الدوات‘‘ میں لکھا ہے ’’اگر دونوں طرح کرتا ہو تو پہلے اس کا حصہ لڑکے کا پھر لڑکی کا، پھر دونوں کو جمع کیا جائے گا اور اس کا آدھا کیا جائے گا‘‘
جنس کا تعین ڈاکٹر کر کے رپورٹ دے گا۔ اسلام نے وراثت کا قانون دیا ہے بلکہ تجہیز و تکفین، قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کی تکمیل کا بھی حکم دیا ہے۔ اس کے لیے قانون ہوناچاہیے۔ مرنے والے کی جائیداد کی تقسیم سرکاری طور پر مقرر ہونی چاہیے۔ یتیموں ، بیوگان، دختران، ماؤں، بہنوں کو ان کا حصہ ملے، جو نہیں ملتا۔
 اسلامی نظریاتی کونسل کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے۔ سرکاری جائیداد کا کوئی انتقال نہیں ہوتا نہ کوئی ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس کی تقسیم کا بندوبست ہونا چاہیے تا کہ حق داروں کو ان کا حق ملے۔ عام طور پر بیٹے وارث بن جاتے ہیں اور خواتین کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ کونسل کو ان مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
کونسل نے یہ بھی کہا کہ عدالتیں خلع اور تنسیخ نکاح میں فرق کریں۔ اس حوالے سے اگلے روز اخبارات میں جمعیت اہلحدیث و قرآن و سنہ موومنٹ کے چیئرمین حافظ ابتسام الہی ظہیر کا بیان شائع ہوا کہ’’خلع لینا جائز ہے اور اس کی مخالفت کرنا کسی بھی اعتبارسے صحیح نہیں۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کو خود اپنی سفارشات پر ازسر نو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک مستند اسلامی موقف دینا چاہیے‘‘
حافظ ابتسام الہی ظہیر کا موقف درست ہے۔ 1959ء میں لاہور ہائی کورٹ نے رضیہ بیگم کے کیس میں ثابت کیا تھا کہ خلع کا حق ہے۔ کونسل نے پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں ووٹوں کے تناسب کے بجائے منتخب ارکان کے تناسب سے انتخاب درست قرار دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں، یہ آئینی مسئلہ ہے۔ خواتین کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ جو طریقہ تجویز کرے۔ وہ کسی صورت بھی قرآن و سنت کی واضح نص کے خلاف نہیں ہے۔ لہذٰا  یہ مباح کی صورت میں آتی ہے۔ یعنی جائز، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر قرآن و سنت نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ جو چاہے، راستہ اختیار کرے۔
کونسل نے کہا ہے کہ ’’وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی، انہیں معاف کر دیا جائے‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز رشید نے غیر ذمے دارانہ بیان دیا۔ دین کے بارے میں اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جس سے مفہوم غلط نکلے۔
مولوی عام طور پر سزاؤں کا ذکر کرتے ہیں، جزاؤں کا نہیں۔ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک مرتبہ میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ’’علامہ اقبال کی نگاہ میں اسلامی سزاؤں سے کہیں زیادہ اسلامی برکات کی اہمیت ہے۔
سزائیں نافذ کرنے میں وہی اسلامی حکومت حق بجانب ہو گی جو پہلے اسلامی برکات سے بہرہ مند کرے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پسماندگی ہے۔ ہمارے اکثر دانشور اور علماء کرام اس مسئلے کا حل پیش نہیں کر سکتے تو پھر ہم کن معنوں میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے ہیں؟‘‘
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے یہ بھی کہا کہ ’’قرآن آسان تحریک کے نام پر قرآن آسان تحریک کی طرف سے شائع کردہ قرآن کریم میں رسم الخط کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہ درست نہیں۔ اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ عربی زبان کا اپنا لہجہ اور تلفظ ہے۔ اس خط اور لہجے کو تبدیل کرنا درست نہیں ہے۔ اس سے معنے تبدیل ہو سکتے ہیں‘‘
میںنے قرآن آسان تحریک کی طرف سے شائع ہونے والا قرآن کریم دیکھا ہے۔ اس میں رنگوں کے ذریعے الفاظ کے معانی بھی واضح کر دئیے گئے ہیں۔ شروع میں منصورہ لاہور کے عبدالوکیل علوی کی یہ تصدیق چھپی ہے ’’میں اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ اس میں اعراب کی کوئی ایسی غلطی نہیں جس سے معنی و مفہوم بدل جائے‘‘ اس کے مترجم و مرتب مولانا سید شبیر احمد ہیں اور محکمہ اوقاف پنجاب نے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ دیا ہے۔
پُرانے نسخے تو کوئی عربی دان بھی نہیں پڑھ سکتا۔ رسم الخط کے حوالے سے کوئی حدیث بھی نہیں کہ کونسا رسم الخط اختیار کیا جائے۔
اگلے روز اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات پیش کیں کہ ’’ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیاجائے۔ مدارس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور ابتدائی تعلیم علاقائی زبانوں میں دینے کا اہتمام کیا جائے‘‘ ان سفارشات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ یہ یونیورسل بات ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری اور علاقائی زبانوں میں دی جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزی اور دیگر زبانیں نہ سیکھی جائیں۔ انگلش میڈیم بھی ساتھ ساتھ چلے۔
حضورنبی کریمؐ نے عربی کے علاوہ دیگر زبانیں سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ محمد بن عمرؓ کافرمان ہے کہ کاتب کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری عجمی زبانیں بھی سیکھے۔ ابن عساکر نے عبداللہ بن ابی بکر بن عمر سے روایت کی ہے کہ زید بن ثابتؓ نے یہود کی درس گاہ میں تعلیم حاصل کی۔
یہاں تک کہ انہوں نے 15دنوں میں ان کی کتاب اور تحریر پڑھنا شروع کر دی۔ حضرت زیدؓ کو عبرانی اور سریانی زبانیں سیکھنے کا حکم حضورؐ نے دیا تھا۔ حضرت زیدؓ ہی یہود کے مکاتیب پڑھ کر سناتے تھے۔ ’’کتاب الادب‘‘ اور ’’الاستیعاب‘‘ میں بھی یہ سب حوالے موجود ہیں۔

ای پیپر دی نیشن