عمران خان ایک عرصہ سے سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہیں‘ لیکن گزشتہ قومی انتخابات کے دوران انہیں ایک ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بڑے بڑے تجربہ کار سیاستدان انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان کے سیاسی جلسے کی انوکھی خصوصیت یہ تھی کہ ان جلسوں اور دھرنوں میں عام خواتین کیساتھ ساتھ فیشن ایبل امیر طبقات کی خواتین کا ایک جم غفیر بھی عمرانی ترانوں پر رقصانہ انداز میں جھومتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ ہماری تاریخ میں صنف نازک کی اتنی بڑی تعداد کبھی سیاسی اور دھرنوی سختیاں جھیلتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ عمران خان کو اس جنونی نسوانہ وارفتگی کے دو فائدے پہنچے۔ سیاسی فائدہ یہ ہوا کہ وہ گھروں کی چاردیواریوں کے اندر بھی مقبول ہوگئے۔ خواتین کی عمران سے محبت ان کے بچوں میں بھی منتقل ہو گئی۔ بہت سے بچے آج بھی گو نواز گو کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرا ذاتی فائد یہ ہوا کہ عرصہ سے غیر شادی شدہ زندگی گزانے والے اس سیاسی رہنما کو اداکارہ میرا سمیت بہت سی خواتین نے شادی کی پیشکش کر دی۔ عمران خان عوامی جلسوں میں یہ اعلان دہراتے رہے کہ عوام کو جمہوری حقوق دلوانے کے بعد شادی کریں گے‘ لیکن اندر کھاتے یہ ہوا کہ ایک میڈیائی خاتون ریحام خان نے انہیں زیر کر لیا اور دونوں شریک حیات بن گئے۔ عمران خان نے یقینا دل ہی دل میں کہا ہوگا؎
میرے دھرنے تھے کیا کراماتی
مل گیا زندگی کا اک ساتھی
عمران خان بار بار اعلان کرتے رہے کہ وہ صوبہ خیبر پی کے میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کراوائیں گے۔ یہ وعدہ انہوں نے وفا کر دیا۔ ہمارا خیال تھا کہ خواتین میں اپنی بے پناہ مقبولیت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے وہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے حکومتی صوبے کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کیلئے متحرک کریں گے اور اپنے وزیراعلیٰ کو خصوصی ہدایات جاری کریں گے کہ ووٹ ڈالنے کی خواہشمند خواتین کو بحفاظت اور بغیر کسی دبائو کے انتخابی مراکز تک پہنچنے کیلئے مؤثر انتظامات کئے جائیں‘ لیکن انتخابی دنگل نے جو رنگ دکھائے‘ انہوں نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ’’زنانہ پن‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اس صوبے میں خواتین پر انتخابی ظلم کا ایک مظاہرہ 7 مئی کو بھی ہو چکا تھا۔ اس دن لوئر دیر کے حلقہ انتخاب میں ضمنی الیکشن کے دوران 47280 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے ایک خاتون بھی ووٹ ڈالنے کیلئے نہیں آ پائی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کا فرض تھا کہ وہ اس تجربے سے سبق حاصل کرتی اور ووٹر خواتین کو متحرک کرنے کیساتھ ساتھ تحفظاتی اقدامات بھی اٹھاتی‘ لیکن ایسے حکومتی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیئے۔انتخابات کے دوران صوبہ بھر میں زبردست بدنظمی دیکھنے میں آئی اور انتخابی ضابطہ اخلاق کو بُری طرح پامال کیا گیا۔ ایک آزاد امیدوار سمیت دس افراد گولیوں کا نشانہ بن کر جان کی بازی ہار گئے۔ مشتعل افراد نے بیلٹ بکس جلا دیئے۔ ووٹوں کی پرچیاں ہوا میں اُڑا دیں۔ کئی علاقے میدان جنگ بنے رہے۔ اسلحہ کی کھلے عام نمائش ہوتی رہی۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں جے یو آئی کے ایک امیدار کا بھانجا پولنگ سٹیشن سے تین بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگ گیا وغیرہ غیرہ۔ دراصل بات خواتین کے انتخابی حقوق کی ہو رہی تھی جن کیلئے تحریک انصاف ہمیشہ آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ تحریک کے زیراقتدار صوبے میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے محروم رکھا گیا۔ پشاور کے علاقہ ہزارخوانی ون میں مقامی اصلاحی کمیٹی نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا۔ اپر دیر اور شانگلہ میں ایک بھی خاتون ووٹ نہیں ڈال سکی۔ صوابی اور ہری پور میں قبائلی سرداروں نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا۔ ناساپہ میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی فائرنگ سے خواتین میں بھگدڑ مچ گئی اور تین خواتین زخمی ہو گئیں۔ ایبٹ آباد میں غازی دائود سکول اور حویلیاں میں خواتین کے پولنگ سٹیشن پر فائرنگ کی گئی۔ گڑھی شیر احمد میں پولنگ سٹیشن کے باہر ہوائی فائرنگ ہوئی۔ ایک آوارہ گولی ایک خاتون کو آن لگی۔ یوسی بغہ میں خواتین کے ایک پولنگ سٹیشن پر ہنگامہ آرائی سے خواتین میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ صوابی بونیر‘ پیر بابا وغیرہ یونین کونسلوں میں خواتین خوف کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں آئیں۔ کوہاٹ میں ایک خاتون پر پریذائیڈنگ افسر کو تحریک انصاف کیلئے اضافی ووٹ ڈلوانے پر معطل کردیا گیا۔ کئی پولنگ سٹیشنز پر بدنظمی کا شکار خواتین غصے میں بپھر گئیں اور جو منہ میں آیا کہتی چلی گئیں۔
یونین کونسل کوٹی سادات بنوں میں ایک خاتون امیدوار انتخابی بازی تو جیت نہ سکی‘ لیکن جذباتی صدمات کے سبب دل کا دورہ پڑنے سے جان کی بازی ہار گئی۔ ان تمام بدنظم حالات کا فائدہ مخالف سیاستدانوں نے اٹھانا ہی تھا۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی نے اعلان کیا کہ عمران خان اور وزیراعلیٰ خٹک نے دھاندلی کروائی۔ آصف زداری نے کہا کہ دنیا نے عمران کی دھاندلی دیکھ لی۔ مولانا فضل الرحمن نے انکشاف کیاکہ تحریکی دھاندلی کا تھیلا کھل گیا ہے۔ اسفند یار ولی اور (ن) لیگ کے کیپٹن صفدر نے اعلان کیا کہ تحریکیوں نے ریکارڈ دھاندلی کروائی ہے جس کے ثبوت موجود ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ دھاندلی کی ہر شکایت کی جانچ پڑتال ہوگی۔ یہ سب درست‘ لیکن بے چاری خواتین ووٹر تو یقینا یہ سوچ رہی ہونگی؎
ہمارے ووٹ کے جو پاسباں تھے
ہمیں روکا گیا جب‘ وہ کہاں تھے