دو روز پیشتر راقم کو ڈسکہ اور سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ ان دو شہروں میں جانے کا مقصد ڈسکہ سانحہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور سنٹرل جیل سیالکوٹ کا معائنہ کرنا اور سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کرنا اور سیالکوٹ کے نئے ڈی پی او رائے اعجاز احمد خاں اور وہاں کی ایک روحانی شخصیت رانا ذوالفقار علی اللہ والے سے ملنا تھا۔ سب سے پہلے راقم ڈسکہ گیا ڈسکہ میں راقم کی وہاں کے دو معروف قانون دانوں اعظم سعید اور ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری محمد محمود حسین سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ چند روز پیشتر ڈسکہ پولیس ایس ایچ او سٹی کی فائرنگ سے صدر بار ڈسکہ، رانا خالد عباس اور عرفان چوہان ایڈووکیٹ کی ہلاکت نے پنجاب کی حکمرانی کو ایک بار پھر چیلنج کر دیا ہے۔ ڈسکہ میں پولیس کے خلاف بہت نفرت بڑھ گئی ہے۔ پولیس بھی ڈسکہ کے بازاروں اور کچہری میں آنے سے گھبراتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈسکہ کے وکلاء اس سانحہ کے بعد روزانہ کچہری میں ایک احتجاجی کیمپ لگا رہے ہیں اور روزانہ جائے وقوعہ پر شمع روشن کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈسکہ کی پولیس نے پندرہ روز کے اندر ٹرائل مکمل کر کے قاتلوں کے خلاف چالان پیش کر کے عدالت میں نہ بھجوایا تو پنجاب بھر کے وکلاء پھر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ ڈسکہ کے بعد راقم سیالکوٹ گیا اور وہاں راقم نے سیالکوٹ کے پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ راقم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام عالم کی ترقی و خوشحالی کا راز تعلیم کے فروغ میں مضمر ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقات کی ترجیحات میں کبھی بھی تعلیم کا فروغ شامل نہیں رہا، کیونکہ جاہل اور ان پڑھ عوام ہمیشہ کیلئے محکوم رہتے ہیں اور ان پر حکمرانی کرنا انتہائی سہل ہے۔ ہم تو اپنے قومی بجٹ کا بمشکل دو فیصد شعبہ تعلیم کیلئے مختص کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں اقوام عالم میں بہت پیچھے ہیں۔ اس بات کی نشاندہی اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو کروڑ پاکستانی بچے سکول نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں ان کی بہت کم تعداد دسویں جماعت تک پہنچ پاتی ہے۔ راقم نے کہا کہ حکومت دفاع کے برابر اہمیت دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی سفارشات کے مطابق فی الفور تعلیمی بجٹ میں جی ڈی پی کا 5 فیصد مختص کرے تاکہ غربت کے باعث تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جا سکے۔ راقم نے کہا کہ اس وقت پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کا 80 فیصد بوجھ اٹھا رکھا ہے لیکن حکومت نے پرائیویٹ سکولوں کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان پر 18 قسم کے ٹیکس لگا کر انہیں زیربار کر رکھا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں 30 ہزار سے زائد پرائیویٹ سکول ٹیکسوں کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں، باقیوں کی بندش کا عمل جاری ہے۔ راقم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جب تک خواندگی کی شرح میں سو فیصد اضافہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک پرائیویٹ سکولوں کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ پریس کانفرنس سے ہماری سیالکوٹ کی تنظیم کے بعد راقم کی پریس کلب سیالکوٹ کے چیئرمین انور حسین باجوہ اور جنرل سیکرٹری میاں نعیم اقبال سے بھی ملاقات ہوئی یہ دونوں بہت جرات مند اور بے باک صحافی ہیں۔ راقم نے سنٹرل جیل سیالکوٹ کا بھی معائنہ کیا جیل کی پولیس نے مجھے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔ معائنہ کے دوران جیل کے سپرنٹنڈنٹ حافظ عزیز اللہ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیر خاں اور جیل کے دوسرے افسران اور اسیران ریلیف کمیٹی پاکستان کے سینئر نائب صدر کاشف ادیب، حافظ ذوالفقار شاہد اور منیب ملک بھی راقم کے ہمراہ تھے۔ جیل بہت صاف ستھری تھی اور قیدیوں کو کھانا بھی بہتر دیا جا رہا تھا جیل کی سکیورٹی بھی اطمینان بخش تھی پورے پنجاب کی جیلوں کی سکیورٹی بہتر بتائی جاتی ہے جس کا کریڈٹ آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر کو جاتا ہے۔ انہوں نے پنجاب کی جیلوں کی سکیورٹی کے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ سکیورٹی فول پروف بنانے کیلئے جیل اہلکاروں کی فوج سے ٹریننگ کروائی گئی جدید اسلحہ خریدا گیا، جیلوں میں جیمرز نصب ہیں جبکہ کلوز سرکٹ کیمروں سے چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ فلٹریشن پلانٹ کے ذریعے قیدیوں و حوالاتیوں کو صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے، قیدیوں، حوالاتیوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس جیل میں 399 قیدیوں کی گنجائش ہے اس وقت 2319 قیدی اس جیل میں نظربند ہیں اس جیل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جیل 1863ء میں انگریزوں نے بنائی تھی یہ جیل انتہائی خستہ حال ہو چکی ہے گزشتہ سیلاب کے دوران قیدیوں کی بیرکوں کی چھتیں گر گئی تھیں اور کئی قیدی زخمی ہو گئے تھے۔ جیل کے سپرنٹنڈنٹ حافظ عزیز احمد کا کہنا تھا کہ بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ 2009ء میں اسے انتہائی خستہ حال قرار دے چکا ہے۔ حکومت کو فی الفور اس جیل کی بیرکوں کو مسمار کر کے نئی بیرکیں بنانی چاہیں اس جیل میں ایک نوجوان لڑکی (ن) بی بی جس نے بی اے کیا ہوا تھا اس سے ملاقات ہوئی اس نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ میں نے اور میرے 4 ساتھی لڑکوں نے ایک کروڑ 64 لاکھ روپے کی ڈکیتی کی واردات کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ ڈکیتی کی واردات بے روزگاری اور ملازمت نہ ملنے کی بنا پر کی تھی۔ اس نے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بے روزگاروں کو ملازمتیں دے اور ان عوامل کو ختم کرے جن کی بنا پر لوگ جرائم کرتے ہیں۔ راقم کی دورہ سیالکوٹ کے دوران سیالکوٹ کے نئے ڈی پی او رائے اعجاز احمد خاں سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ سانحہ سیالکوٹ پر خود بھی افسوس کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے پولیس کے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ معزز شہریوں کا احترام کریں اور کوئی غیرقانونی کام نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں پولیس کی روایتی باتوں اور روایتی حربوں کے سخت خلاف ہوں اور ان روایات کو پس پشت ڈال کر اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ضلع بھر کے تھانوں کو امن کا گہوارہ بنانے اور جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں، میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھوں گا۔ معاشرے میں سماجی برائیوں کے خلاف جہاد کرنا پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے۔راقم نے سیالکوٹ کی ایک روحانی شخصیت رانا ذوالفقار علی اللہ والے سے بھی ملاقات کی وہ عرصہ چار سال سے اپنے عزیزوں اور عوام سے الگ تھلگ گوشہ تنہائی میں دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے ہیں اور وہ پاکستان کے استحکام اور مسلمانوں کی بہتری کیلئے بھی دعا کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے دین اسلام کیلئے متعدد کتب بھی لکھی ہیں۔