”اقبال، قرآن کی روشنی میں“

تبصرہ: جی آر اعوان
”میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اسلام اور اس کی شریعت، اس کی سیاست مدن، اس کی ثقافت، اس کی تاریخ اور اس کی ادبیات میں صرف کیا۔ میرا خیال ہے اس روح اسلامی کے ساتھ مستقبل وابستگی نے مجھے ایسی فراست عطا کر دی ہے جس کی روشنی میں اس اعظم الشان اہمیت کا اندازہ کر سکتا ہوں جو اسلام کو ایک عالمگیر حقیقت ثانیہ کی حیثیت سے حاصل ہے“
علامہ اقبال کے مسلم لیگ کے اجلاس میں دیئے گئے ایک خطبے کا یہ حصہ قاضی محمد ضریف ایم اے کی کتاب ”اقبال، قرآن کی روشنی میں“ سے لیا گیا ہے۔ کتاب میں اقبال کے قرآن مجید کی تفسیر کے حوالے سے افکار آگیںا شعار کو یک جا کیا گیا ہے اور ان سے نظام حیات کے لئے رہنمائی لی گئی ہے۔
کتاب میں مصنف نے باور کر دیا ہے، اقبال کا کلام کما حقہ سمجھ نہیں آسکتا جب تک قرآن حکیم نگاہوں کے سامنے نہ ہو، اس زاویہ نگاہ سے پیام اقبال کو دیکھنے والوں کو محسوس ہوگا کہ قرآن کریم نے انسان کو کن بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی منکشف ہوگی کے علامہ اقبال کلام خدا کے بڑے بڑے حقائق اور ادق مسائل انتہائی خوبصورتی اور سلاست سے ایک ایک شعر میں حل کر دیتے تھے۔
اقبال فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں بتایا تھا، تم جب قرآن مجید پڑھو تو یہ سمجھو یہ تم پر ہی اتر رہا ہے۔ والد نے اقبال کو اسلام کی خدمت کا بھی حکم دیا جب نوجوانوں نے اقبال کی شاعری کو اسلام کا ترانہ سمجھنا شروع کر دیا تو آپ کے والد نے فرمایا ”اقبال بیٹے تم نے میری محنت کا معاو ضہادا کر دیا ہے۔“
اقبال نے قرآن مجید کو اپنا نصب العین بتایا اور اس کی روشنی میں اپنے نظریات تبدیل کئے۔ حقیقت میں یہ ان کے فکر و نظر کا ار تقا تھا جو کلام الٰہی کےمطالعہ اور اس کی سمجھ سے پیدا ہوا۔ اقبال نے سید راس مسعود کو بتایا تھا”میں نے مرنے سے پہلے قرآن پاک کے متعلق اپنے افکار لکھنا چاہتا ہوں“ لیکن عالم اسلام اس نعمت سے محروم رہا۔
جاوید نامہ میں اقبال نے لکھا ہے
حفظِ قرآن عظیم آئینِ تُست
حرفِ حق را فاش گفتن دین تُست
مرد حق از کس نگیر درنگ و بود
مرد حق از حق پذیر و رنگ و بود
جزوحرم منزل ندارد کارواں
غیر ِحق در دل ندا رد کاررواں
یہ کتاب شیخ غلام علی اینڈ سنز لمٹیڈ پبلیشرز، 199 سرکلر روڈ چوک انارکلی سے دستیاب ہے۔

”اقبال اپنے آئینے میں“
شاعر حسن کا دلدادہ ہوتا ہے۔ اس کی جادو بیانی، سحر طرازی، قافیہ پیمائی، رنگین مزاجی رہین منتِ حسن ہوتی ہے۔ وہ جہاں جس جگہ اور جس کسی میں حسن کی تجلی پاتا ہے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیتا ہے۔ وہ خرمن ہے، حسن برق خرمن سوز بھی ہے۔ شاعر اور حسن میں ایسا رشتہ قائم ہے جو ناقابل الفصال ہے۔
یہ اقتباس سید رئیس احمد جعفری کی کتاب ”اقبال اپنے آئینے میں سے لیا گیا ہے، اقبال کے حوالے سے کتاب میں مصنف رقمطراز ہے، حکیم امت میں یہ خاص صفت ہے وہ جب کسی نازک موضوع زبان سخن وا کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ زبان کے پجاریوں، الفاظ کے نقش بندوں اور ترکیب و بندش کے متوالوں کے سامنے اپنی کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔
نوجوان اقبال دیار مقرب کے سفر پر روانہ ہوئے۔ رات کا وقت ہے انہیں ٹمٹاتی ہوئی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں جباز رواں ہے، رکتا نہیں ان کے استفسار پر معلوم ہوتا ہے ”یہ سسلی ہے“ جہاز چل رہا ہے اقبال رقص، قہقہ، بے تکلفی، عشوہ فروشی میں کھو جاتا ہے۔
اقبال خود کہتے تھے، اقبال کی زندگی اور ان کی شاعری میں پوری مطابقت اور ہم آہنگی ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ ”لا نہ سکے گا فرنگ میری نواﺅں کی تاب“ پھر بھی جو کچھ دل میں آتا تھا اسے بے خوف کہہ دیتے تھے۔ مصنف نے کلام اقبال سامنے رکھ کر اس میں سے اقبال کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
مصنف نے اقبال کے ہزاروں اشعار بار بار پڑھے اور سامنے رکھے ان میں سے اقبال کو اپنے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی ہے، یہ ایک نیا موضوع تھا جو محنت طلب تھا اور مصنف کی محنت ہر جملےمیں نظر آتی ہے۔ یہ کتاب شیخ غلام اینڈ سنز لمٹیڈ پبلشرز 199 سرکلر روڈ چوک انارکلی سے دستیاب ہے

”اردو ناول پنہال“
تبصرہ: جی آر اعوان
اردو ناول پنہال کی مصنف منزہ عابد نے ناول کے دیباچے میں لکھا ہے”جب چوٹ لگ جائے اور بات بگڑ جائے تو بچہ دوڑ کر اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے۔ اس کے نرماہٹ سے بھرے پیار کے لمس سے بچے کی ساری پریشانیاں اڑن چھو ہو جاتی ہیں۔ اسے وہ سکون ملتا ہے کہ سب سسکیاں، کلکاریوں میں بدل جاتی ہیں۔
ناول میں زندگی کی مختلف جہتوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران کلاس رومز میں طلباءکے شور، لان میں دھما چوکڑی اور سائنس رومز میں سنجیدگی کے ساتھ تجربات میں مصروفیت کے علاوہ تعلیمی اداروں کے خوش گوار ماحول کو قلم و کاغذ کے سپرد کیا گیا ہے۔
ناول میں استادکے ساتھ طالبہ کی شادی کے باوجود اُس لڑکی کے اندر شاگردانہ آداب کی موجودگی قابل توجہ سے عموماََ زندگیوں میں یوں نہیں ہوتا۔ مصنف نے ناول میں ماں کے رتبے، ماں کے رشتے اور ماں کے جذبوں کی درست ترجمانی کی ہے۔ ماں واقعی خدا کا عطیہ اور اولاد کے لئے بہترین تحفہ ہے جس کی قدر ہو تو کیا ہی اچھا ہو۔
پنہال ناول مرزا پبلی کیشن، انارکلی لاہور دستیاب ہے، 240 روپے قیمت والی یہ کتاب علی پرنٹرز دربارمارکیٹ سے طبع ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن