اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت + آن لائن)جوڈیشل انکوائری کمشن نے الیکشن کمشن اور پرنٹنگ پریس کے پانچ سرکاری گواہوں کے بیانات قلم بند کرلئے جبکہ فریقین وکلاء نے ان پر جرح بھی مکمل کر لی ہے آج بروز بدھ مزید تین سرکاری گواہوں سو نوخان بلوچ،خلیق الرحمان، نوید اے خواجہ پر جرح کی جائے گی جبکہ سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن شیر افگن پر جرح کل کی جائے گی، اسی دن ق لیگ کے پرائیویٹ 16گواہوں پر بھی جرح کی جائے گی، ق لیگ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا ہے انتخابات میں دھاندلی کے لیے ہر دفعہ نیا طریقہ کار استعمال کیا جاتا رہا ہے، عام انتخابات2013 میں ریٹرننگ آفیسرز جنہیں قانون کی چھتری حاصل تھی کے ذریعے دھاندلی کرائی گئی تھی یہ میری رائے ہے جو غلط بھی ہوسکتی ہے، جوڈیشل افسران قابل عزت ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس ناصرالملک نے ق لیگ کے وکیل کی جانب سے ریٹرننگ افسران کے انتخابی دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات کے حوالے سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ ایک بات کریں ایک طرف آپ آر اوز پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں دوسری جانب انہیں قابل عزت جوڈیشل آفیسرز کہہ رہے ہیں آپ کا کیا کہنا ہے کل آپ دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام صدر پاکستان پر لگاسکتے ہیں، آپ ایک موقف اختیار کریں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سلمان اکرم راجہ نے دریافت کیا بیلٹ پیپرز کی تعداد سے متعلق 3 فہرستیں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ الیکشن کمشن کے عہدیدار عبدالوحید نے بتایا پرنٹنگ پریس کے دباؤ پر انہیں بیلٹ پیپرز کی ابتدائی تعداد بتائی گئی۔ 20 اپریل کو فہرست میں کل پولنگ سٹیشن کو 100 سے ضرب دی۔ نتیجے میں حلقے کے ووٹ جمع کئے پھر ٹوٹل نمبرز کو 100 سے تقسیم کیا۔ نیا فارمولا تیار کر کے نئی فہرستیں تیار کی گئیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا جو فہرستیں آپ نے بنائیں اس میں آر اوز کا کوئی کردار تھا؟ عبدالوحید نے بتایا فہرستیں فارمولے کے تحت بنائی گئیں اس میں آر او کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بیلٹ پیپرز کی طلب پر آر او، ڈی آر او، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے کہنے پر ترمیم کی گئی۔ آن لائن کے مطابق جوڈیشل کمشن نے ق لیگ سے گواہوں کی حتمی فہرست 48گھنٹوں میں طلب کرتے ہوئے واضح کیا جن گواہوں سے جرح کی جاچکی ہے ان کو دوبارہ نہیں بلایا جائیگا۔ کمشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کمشن اپنی حدود وقیود کے مطابق ہی گواہوںکوطلب کرے گا غیر متعلقہ گواہوں کو طلب کرنے پر اصرار نہ کیا جائے کل کو کوئی فریق کہہ دے صدر مملکت کو بھی بلایا جائے تو کیا ہم ان کو بھی بلا لیں، آراوز نے منظم دھاندلی کرائی ہے توکیا اس حوالے سے ق لیگ کے پاس کوئی ثبوت بھی موجود ہے یا پھر وہ صرف چاہتے ہیں آراوز سے صرف یہی پوچھنا ہے انہوں نے نتیجہ مرتب کرتے ہوئے ق لیگ کے امیدواروں کو کیوں طلب نہیں کیا تھا۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق الیکشن کمشن کے سابق ڈی جی بجٹ غیاث الدین نے الیکشن کمشن کے وکیل کے سوال پر بتایا انہوں نے پاکستان پوسٹل فائونڈیشن اسلام آباد کی سکیورٹی کلیرنس اور وہاں تعینات عملہ کی سکیورٹی کے حوالے سے ڈی جی آئی بی اورآئی ایس آئی کو سیکرٹری داخلہ کے توسط سے نمائندہ بھجوانے کی درخواست کی تھی جس پر دونوں اداروں کے نمائندوں نے وہاں کا معائنہ کیا اور سکیورٹی کلیرنس دی تھی، صوبائی الیکشن کمشنر لاہور آفس میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالوحید نے جرح کے دوران بتایا انہوں نے بیس، اکیس اور چھبیس اپریل 2013ء کو پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی کو چار مختلف خطوط لکھے تھے جن میں بیلٹ پیپر چھاپنے کے حوالے سے فہرست بھی پیش کی گئی تھی،پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا گواہ کا بیان الیکشن کمشن کی جانب سے داخل کئے بیان سے متصادم ہے۔ پرنٹنگ کارپوریشن اسلام آباد کے منیجر فضل الرحمن نے کہا جب بیلٹ پیپرز چھا پے تو 41لاکھ91ہزار800بیلٹ پیپرز پر نمبر نہیں تھے اور ان کی بائینڈنگ بھی نہیں ہوئی تھی ہم نے ان کی نمبرنگ اور بائینڈنگ کا کام کرایا تھا اور اس کام کے لیے ہم نے مارکیٹ سے پرائیویٹ بندے لیے تھے، ہم نے الیکشن کمشن کو 7مئی کو اضافی لیبر کی درخواست کی جبکہ ہم کو یہ بیلٹ پیپرز 6اور 7مئی کو ملے تھے، ہم کو الیکشن کمشن پنجاب کے جوائنٹ سیکرٹری خلیق الرحمان کی جانب سے 60بندے بھجوائے گئے، ہم نے ان میں سے 34لوگوں کو کام پر رکھا جبکہ باقی نمبرنگ اور بائنڈنگ وغیرہ کے کام کے ماہر نہیں تھے اور 10 مئی کو ان بندوں نے اپنا کام ختم کر لیا تھا، اس سے قبل بھی اسلام آباد اور پشاور سے ایک ٹھیکیدار نے 80بندے ہم کو اسی کام کے لیے دیے، جبکہ انکوائری کمشن کے سامنے الیکشن کمشن کے سابق ڈائریکٹر بجٹ اشفاق سرور نے ادائیگیوں کے ریکارڈ کی تصدیق کی۔ انکوائری کمشن کے رو برو الیکشن کمشن ہی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن شبیر احمد مغل نے بتایا 2013کے الیکشن میں حتمی لسٹ شائع ہونے کے بعد بلڈنگس کی ترتیب اور ووٹرز کے حوالے سے کچھ ردوبدل کیا گیا،اس کام کے لیے ہم نے باقاعدہ تصیح نامہ جاری کیا تھا۔ ق لیگ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے اپنے موقف میں کہا ریٹرنگ افسران نے رزلٹ مرتب کر تے وقت امیدواروں کو نوٹس جاری نہیں کیے جس پر انہوں نے چھ ریٹرنگ افسران کو طلب کر نے کی استدعا کی تا ہم کمشن نے ان کو ہدایت کی وہ جن قومی اور صوبائی اسمبلی کے 16حلقوں کی بات کر تے ہیں جن میں آر اوز کے ذریعے دھا ندلی کی گئی وہاں کے پرائیوٹ گواہان کو پیش کر یں جس پر ڈاکٹر خالد رانجھا نے بتایا ان کے گواہان میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار چوہدری وجاحت و دیگر شامل ہیں۔ خالد رانجھا نے کہا صدر نے خود کہا تھا یہ آر اوز کا الیکشن تھا تو چیف جسٹس نے کہا پھر صدر کو بھی گواہ بنا کر پیش کر دیں،خالد رانجھا نے کہا میں اپنے لیے بات نہیں کر رہا بلکہ کمشن کی رہنمائی کر رہا ہوں، میں نے اپنے گواہان کے بیان حلفی دئیے ہیں بے شک ان کو ہی درست تصور کر لیں تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا اپ کو اپنے گواہ پیش کر نا ہوں گے اور ان کے بیانات قلم بند ہوں گے ان پر جرح کی جائے گی انکوائری کمشن نے الیکشن کمشن کو کہا جب ق لیگ کے 16حلقوں کے گواہ پیش ہوں تو اپ ان حلقوں کے فارم 14اور 16بھی پیش کریں۔