تقسیم ہند کا اصول مسلمانوں نے میدان جنگ میں جیتا۔ قائد اعظم نے اپنے اصول سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ہر طاقت کا مقابلہ کیا۔ ہر فریب اور چال سے بچے، یہ کوئی معمولی فتح نہیں کہ دو دشمن ایک حکومت برطانیہ اور ایک ہندو کانگریس،انہوں نے کیا کیا چال سوچی ہو گی تاہم محمد علی جناح تنہا انسان نے ان کو بھاگنے نہیں دیا اور قیام پاکستان کا مطالبہ منوا لیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا چند مقاصد کے لیے مطالبہ کیا تھا کہ جب مسلمانوں کا جدا وطن پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گا تو اس میں بسنے والے جمہوری انداز کی حکومت تشکیل کرکے پارلیمنٹ یعنی لوگوں کے ووٹوں سے چنی ہوئی اسمبلی کو آئین کی پاسداری اور حکومت کو چلانے کا حق حاصل ہو گا۔ گویا لوگ فیصلہ اکثریت کے ساتھ کریں گے۔ ملک میں ہر شخص کے لئے آئین اور انصاف برابر ہو گا اور تمام شہریوں کے حقوق کی پاسداری ہو گی۔ ہر ایک شخص کو مذہبی آزادی ہو گی اور ملک ترقی کی منزل کی طرف بڑھے گا گویا ان کے ذہن میں ماڈرن اسلامک ریاست کا نقشہ تھا۔ ان کے نزدیک اسلام برداشت، امن آشتی اور محبت کرنے کا طریقہ زندگی ہے۔ شہری خواہ کوئی ہے اس کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار حکومت وقت ہو گی۔۔
آپ نے فروری 1948ء کو ریاست ہائے متحدہ کی براڈ کاسٹنگ کمپنی کے لیے آئین پاکستان کے بارے میں بیان دیا۔ مجھے علم نہیں ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی مستقبل میں کیا آئین تشکیل دیتی ہے کیونکہ آئین سازی ابھی ہونی ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ آئین جمہوری طرز حکومت کا حامل ہو گا جس میں اسلام کے سنہرے اصول انصاف، مساوات ہوں گے کیونکہ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح 1400 سو سال پہلے اسلام نے بتائے کیونکہ اسلام ہمیں جمہوری روایات سکھاتا ہے۔ لہٰذا ہماری وراثت میں لازوال سنہرے اسلام کے اصول ہیں اور ہم اس لیے اپنے آئین کے بارے میں بے خبر نہیں ہیں۔ پاکستان میں ملائیت نہیں ہو گی کیونکہ اس کی سرزمین میں غیر مسلم عیسائی، ہندو، سکھ اور دیگر قومیں آباد ہیں۔ تمام پاکستانی ہیں آپ نے ہمیشہ شہریوں کے حقوق کی بات کی۔
3جون 1947ء کو یومِ نوید آزادی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس دن برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوستان کو دو آزاد مملکتوں میں تقسیم کرنے کے طریق کار کا اعلان کیا گیا۔اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 18مئی کو مائونٹ بیٹن لندن گیا اور 23مئی کو برطانوی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دیدی۔ 31مئی کو منظور شدہ منصوبہ لے کر مائونٹ بیٹن واپس ہندوستان پہنچا اور 2جون کو وائسریگل لاج میں ایک اہم اور تاریخی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں قائداعظمؒ، نوابزادہ لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر‘ جواہر لال نہرو‘ سردار ولبھ بھائی پٹیل‘ کرپلانی اور سردار بلدیو سنگھ نے شرکت کی۔ مائونٹ بیٹن نے منصوبے کی نقول ان رہنمائوں کے حوالے کرکے رات بارہ بجے تک جواب دے دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ 3جون کو وائسرائے اور ان رہنما ئوں کی یہ کانفرنس اختتام کو پہنچی جس کے فوراً بعد لندن سے برصغیر کی تقسیم کا رسمی طور پر اعلان کردیا گیا۔ 3جون کی شام برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اپنی نشری تقریر میں کہا کہ ’’ہندوستانی رہنما متحدہ ہندوستان کے کسی حل پر اتفاق کرنے میں بالآخر ناکام ہوگئے ہیں اور اب تقسیم ہی ایک ناگزیر راستہ رہ گیا ہے۔‘‘اسی روز شام کے وقت آل انڈیا ریڈیو سے لارڈ مائونٹ بیٹن نے خطاب کیا جس کے فوراً بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ، جواہر لال نہرو اور سردار بلدیو سنگھ نے خطاب کیا۔
قائد اعظم سٹوڈیو تھری میں تشریف فرما تھے جب ہم نے شیشے سے جھانکا تو قائد اعظم ایک صفحے پر کچھ تحریر کر رہے تھے اور بڑے بڑے واضح حروف میں لکھے جا رہے تھے۔ ان کو کسی کا علم نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔اعجاز احمد محبت کے مارے کمرے میں چلا گیا۔ قائد اعظم نے مڑ کر انہیں دیکھا وہ نزدیک بیٹھ گیا۔ یہ شخص خوش تھا کہ مسلمانوں کی تاریخ کے بڑے ہیرو کے پاس بیٹھا ہے اور پاکستان بننے کی امید قریب تھی وہ تقریر لکھنے میں مصروف تھے اور بغیر ادھر ادھر توجہ کے اپنا لکھا ہوا سکرپٹ پڑھ رہے تھے کیونکہ انہوں نے ریڈیو سے کروڑوں انسانوں کے سامنے پڑھنا ہے۔ اپنا سکرپٹ مکمل کرنے کے بعد آخر میں دو الفاظ تحریر کیے۔ پاکستان… زندہ باد… یہ الفاظ لکھنے کے بعد جب انہوں نے پڑھا تو ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
قائد اعظم کی تقریر تقریباً دس منٹ تک رہی۔ ان کی آواز ہالی وڈ کی مشہور اداکار ’’رونالڈ کال‘‘ جیسی تھی جنہیں سٹڈی کارٹن سے شہرت حاصل ہوئی۔ آپ نے تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا ایسا نعرہ لگایا جو دنیا میںگونج اٹھا۔ آپ نے اپنی تقریر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہر فرد سے اپیل کی اور منصوبے کے بارے میں اظہار کیا تاہم حتمی فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے فیصلے پر چھوڑا۔