kamal fsd5050@hotmail.com
جمہوری ممالک خاص طور پر پاکستان جیسے جمہوری ملک میں دو روایت بڑی مستحکم اور مضبوط ہیں اور ان دونوں کے مظاہر مختلف وقتوں میں عوام کے سامنے آتے ہیں لیکن عوام مجبور، بے بس اور مقہور ہوتے ہیں یا تو محض تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں یا پھر چپ کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایک روایت ہے ریاست کے اندر ریاست اور دوسرا پولیس سٹیٹ اور ان دونوں روایات کا اگر کسی شعبہ یا کسی ادارہ، کسی محکمہ سے تعلق ہے تو وہ بلاشبہ ہر زاویہ نگاہ سے محکمہ پولیس ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب بھی ریاست کے اندر ریاست کا تصور ابھرتا ہے تو منظر پر جو پہلی تصویر نظر آتی ہے وہ پولیس کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں پولیس ایک ایسا محکمہ ہے جس سے لوگ کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ ایک عام شہری کی نگاہ میں پولیس کا تاثر انتہائی منفی ہے اور بڑی حد تک یہ ایک اٹل حقیقت بھی ہے۔ یہ تاثر کوئی نیا تاثر نہیں یا کسی ایک واقعہ کے بعد ابھرا ہے بلکہ اس کے پس پردہ پولیس کے رویہ اور اس کے کردار کا بھی بڑا دخل ہے۔ یہ حیرت اور حیرانی کی بات نہیں کہ پولیس مظلوم ہونے کے باوجود ظالم کے کردار میں سامنے آتی ہے اور ایک حاضر سروس پولیس مین کا یہ کہنا ہے کہ آدھے سے زیادہ جرائم کے پیچھے پولیس کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ جرائم کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے اور اس دنیا کی سرکوبی پولیس کے فرائض میں شامل ہے لیکن پولیس والوں کے اپنے جرائم اس قدر خوفناک اور بھیانک ہوتے ہیں کہ جرائم کی دنیا کے باسیوں کے جرائم کے مقابلہ میں پولیس جرائم غالب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود پولیس کو انصاف فراہم کرنے والی ایجنسی قرار دیا جاتا ہے اور یہ طرفہ تماشا نہیں تو اور کیا ہے کہ پولیس والے بھی جرائم بلکہ سنگین جرائم میں ملوث ہوں تو تفتیش بھی پولیس ہی کرتی ہے۔ بقول شاعر
”تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ“
فیصل آباد میں سہیل حبیب تاجک کے تبادلہ کے بعد افضال احمد کوثر نے سی پی او کی کرسی سنبھالی ہے اور آج کل افضال احمد کوثر سی پی او فیصل آباد اپنے ماتحت افسران اور عملہ کو نئے سے نئے احکامات جاری کر رہے ہیں اور اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ فیصل آباد کو فری جرائم سٹی بنائیں گے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر ممکن ہی نہیں۔ کوئی انہونی ہو سکتی ہے لیکن کسی شہر کا جرائم سے پاک ہونا ناممکنات میں شامل ہے کیونکہ بقول ایک نیک دل پولیس مین آدھے سے زیادہ جرائم کے پیچھے تو پولیس ہی ہوتی ہے۔ سی پی او فیصل آباد افضال احمد کوثر نے تمام ڈویژن ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو حکم جاری کیا ہے کہ مقدمات کی پیروی کے لئے عدالت میں پیش ہونے والے افسران سے ہفتہ وار میٹنگ کا انعقاد کیا جائے اور معاملات کو طریقے اور قانون کے اندر رہتے ہوئے تمام زیرسماعت کیسوں کی نگرانی کی جائے۔ سی پی او افضال احمد کوثر کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس کے ورک میں پیروی افسر ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں اور اس امر کا ریکارڈ بھی رکھا جائے کہ کتنے گواہان اپنی شہادت قلمبند کرا چکے ہیں جو افسران موثر پیروی نہیں کریں گے اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے ان کے خلاف محکمانہ انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ عزم یہ احکامات اپنی جگہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اگر زیرسماعت مقدمات کی پیروی پولیس بروقت کرے اور شہادتیں وغیرہ وقت پر قلمبند کرائے تو عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ صادر کرنے میں آسانی رہے اور ان پر مقدمات کا بھی بوجھ نہ پڑے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں اور پیروی پولیس افسر اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی پیروی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ہم پولیس کے اپنے جرائم کی بات کرتے ہیں جو سنگین اور سنگین ترین بھی ہوتے ہیں اور عام روٹین کے ہوتے ہیں۔ تھانہ ترکھانی کے ایس ایچ او محمد اکرم نے چوری کے ایک ٹریکٹر کو برآمد کرنے کے بعد نمبر ٹمپر کروا کر ایک دوست کو نذرانہ میں پیش کر دیا اور مالک ٹریکٹر کی بار بار درخواست کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی۔ اس پر مالک ٹریکٹر الیاس نے اعلیٰ افسران کو درخواست دی۔ انکوائری ہونے پر ایس ایچ او ترکھانی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایسے ہی ایک اور پولیس انسپکٹر نے کرایہ پر کار حاصل کی اور واپس کرنے کی بجائے اسے اپنی ملکیت قرار دے دیا۔ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر امانت علی نے عدالتی اہلکار محمد احسن سے ایک مقدمہ کی فائل پڑھنے کے لئے لی اور فائل واپس کرنے سے قبل فاضل جج کے کمنٹس تبدیل کر دیئے تاکہ عدالت کو دھوکہ دیا جا سکے۔ ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد منصور قریشی نے ایف آئی اے کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی اس ”کرامت“ سے فاضل جج کو آگاہ کر دیا۔ یوں اس کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایسے ہی گذشتہ دنوں کسی جرم میں ملوث ہونے پر ایک خاتون کو حوالات میں بند کیا گیا تو پولیس والے اپنی جنسی بھوک مٹاتے رہے۔ ایک سب انسپکٹر نے چوری کے الزام میں پکڑے گئے شخص کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور اس سے چوری اور راہزنی کی وارداتیں کرواتا رہا۔ غرض کہ پولیس ملازمین کے ایسی وارداتوں میں ملوث ہونے کی اگر فہرست پیش کی جائے تو وہ اتنی طویل ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ اگر قانون کے محافظ ہی ڈاکو کا روپ دھار لیں تو قانون تو خود پر ماتم کرتا ہی دکھائی دیتے۔ مذکورہ جرائم کی نوعیت تو عام جرائم جیسی ہے لیکن الاماشاءاللہ ہماری پولیس میں ایسے ایسے شہ زور بھی ہیں جنہوں نے پولیس کی وردی کو اپنے جرائم پر پردہ پوشی کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کرنا اپنا وطیرہ بنایا ہوا ہے اور وہ کروڑوں لاکھوں روپیہ کسی شخص کو قتل کرانے اور کروانے کا اصول کرتے ہیں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے نزدیک ان کا شمار اچھی کارکردگی دکھانے والوں میں ہوتا ہے، انہیں انعامات اور تعریفی اسناد سے بھی نوازا جاتا ہے۔ رانا فرخ حمید انسپکٹر کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے اور اس کے سرپرست کسی بالائی مخلوق سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ حکمران اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں، پولیس افسروں پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پولیس کی صفوں میں جو جرائم پیشہ عناصر گھسے ہوئے ہیں ان سے محکمہ کو پاک کرنے کے لئے پولیس کے محکمہ میں بھی آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس وقت پورے ضلع میں منشیات پوری دیدہ دلیری سے فروخت ہو رہی ہیں اور کوئی علاقہ منشیات فروشی سے پاک نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا یہ منشیات فروش پولیس کو منتھلی دیتے ہیں۔ ایسے ہی گلی محلوں میں جن میڈیکل سٹورز پر نشہ آور ادویات فروخت ہوتی ہیں یا پونڈے فروخت ہوتے ہیں قماربازی کے اڈے چل رہے ہیں یہ تمام نظام پولیس کی محکمہ ایکسائز کی اور محکمہ صحت کی آشیرباد سے ہی چل رہا ہے۔ سی پی او افضال احمد کوثر اس طرف بھی توجہ دیں اور اپنی کوئی ایسی خفیہ ٹیم بھی بنائیں جو ایمانداری سے تھانوں میں ہونے والی کرپشن اور پولیس کی وردی میں جو پولیس مین جرائم میں ملوث ہیں ان کی نشان دہی کر سکیں تاکہ کسی حد تک تو بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح میں کمی آ سکے۔ یہاں تو پولیس مقابلے بھی نمائشی ہوتے ہیں۔ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کرنے اور پولیس نے ریاست کے اندر اپنی جو ریاست قائم کر رکھی ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ سی پی او کو اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔