’’گِرد اے چانن وچ انھیر‘‘

Jun 03, 2016

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

علم کی افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ قومیں ہمیشہ اس سلسلے میں ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔معاملہ دنیاوی سبقت کا ہو یا قربت خداوندی کا، علم نے ہی انسانی ذہن کو بالیدگی اور بصیرت عطا کی۔انسان نے جو کچھ چاہا اس کے راستے تلاش کرتا رہا اور علم کی شمع نے ہی بالآخر اسے اس مقام تک پہنچا دیا۔قانونِ قدرت ہے کہ انسان نے جتنی کوشش کی اسکواتنا مل گیا یعنی جو سوتا رہا وہ محکوم ہوگیا۔ہمارے پاس علم کا وہ خزینہ ہے جس نے انسانیت کی پہچان اور معاشرے کو مربوط رہنے کی ترغیب دی۔ انسان کو دنیا میں سرفراز ہونے کا طریقہ اور آخرت میں بطور ’’نفس مطمعّنہ‘‘ اللہ کے سامنے جانے کا سلیقہ عطا کیا۔
ہم کہاں غلط چلے گئے، کس مقام پر پیچھے رہ گئے؟اس پر بہت کچھ لکھا جا چکاہے ۔میری نظر میں شاید پیچھے دیکھتے دیکھتے، تیز رَو زمانے کے ساتھ قدم نہ رکھ پانا ہی ہمارا قصور ہے مگر قابل تصحیح ہے۔آج سب پاکستانی تعلیم پر توجہ دینے کے قائل نظر آتے ہیں اور ریفارمز کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے۔آئیں اس کا ر خیر میں حصہ ڈالنے کی کوشش کریں۔میرے نزدیک چار ایسے پہلوہیں جن پر ہمیں غور کر کے اپنی قوم کی تعمیر کیلئے اہداف مقرّر کرنے ہیں۔
1۔موجودہ نظام تعلیم کے ذریعے قوم کے منقسم ہونے کو روکنا۔ہمارا موجودہ نظام تعلیم قوم کو چار ایسے گروہوں میں تقسیم کر رہا ہے جنکی سوچ ،رہنا سہنا، باہمی ربط ، حتی کہ مذاق تک مختلف ہیں۔وہ زندگی میں کہیں اکٹھے نہیں ہو پاتے۔ رشتہ داریاں تو بہت ہی دور کی بات ہے۔مثلاً: ا۔مدرسوں میں بچہ ایک مخصوص نقطہ نظر میں پل کر جوان ہوتا ہے اور فارغ التحصیل ہوکر وہ اسی کے پر چارکیلئے نکلتاہے۔باہر معاشرے میں پذیرائی نہ ہونے سے اس کے اندر ایک خاص ردِعمل پیدا ہوتا ہے اور اسے صرف اپنی کلاس میں مدغم ہونے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔ ب۔سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔مگر معصومیت سے ہی وہ معاشرے کامکروہ ترین چہرہ دیکھتے ہوئے جوان ہوتے ہیں۔کہیں سکول کی بلڈنگ میں جانور بند ھے ہوے،کہیں ٹیچر غائب ، کہیں بلیک بورڈ وغیرہ مل گیا یا اسکے بغیر ہی زمین پر بیٹھ کر پڑھ لیا۔زبان پَر رٹّہ اور ذہن میں معاشرتی نا ہمواری۔اس کلاس میں اکا دُکا آگے نکل جاتے ہیں باقی سرکاری محکوں میںکرپشن کا اثاثہ ثابت ہوتے ہیں۔ ج۔ انگلش میڈیم سکول عموماً اچھا رزلٹ دے رہے ہیں لیکن یہ بھی عملی زندگی میں ایک Privilleged کلاس بن کر آپس میں ہی ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔
د۔ بیرونِ ملک پڑھنے والوں کی کلاس چاہے وہ وہاں رہنے والے معمولی ورکر وں کے بچے ہوں یا حکمرانی کیلئے تیار کئے جانیوالے امیر زادے ،سب اپنے آپ کو یہاں پڑھنے والے پاکستانیوں سے برتر سمجھتے ہیں۔انکی بیرونِ ملک ایک سوسائٹی ہوتی ہے جسے وہ پاکستان میں رہ کر بھی اپنائے رکھتے ہیں۔اور انکے حکمرانی میں آکر وطن عزیز کے مفادات کو بھی داؤ پر لگانے کا خطرہ قائم رہتا ہے۔
2۔دوسرا پہلونصاب تعلیم کا ہے۔ہمارا نصاب تعلیم مندرجہ بالا کلاسز کی سو چ کیمطابق مختلف الجہات ہے ہمیں مزید وقت ضائع کئے بغیر اپنی قومی نفسیات اور اس پر غیروں کے حملوں کو مد نظر رکھ کر، یکساں نصاب تعلیم کومرتب کرنا ہے۔اسلام نے سوسائٹی کا حو تصور دیا ہے۔وہ مکمل ویلفیئر سٹیٹ کا ہے جسکی بنیاد تعلیم اور انسانیت پر ہے۔ہمیں اپنی اقدار اور اپنے مشاہیر کو اجاگر کر کے اپنی تاریخ کو از سر نو آراستہ کرنا ہے۔ ایرانی-منگول-ترک-افغانی حملہ آور نہ تو ہمارے آباو اجداد تھے اور نہ ہی ہیرو۔ہماری تاریخ کا پس منظر 1857؁ء اور اسکے بعد سر سید احمد خان سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں آج تک بہت عالی مرتب ہیروزآئے ہیں۔ ہمیں اپنی آئندہ نسل کو یکساں نصاب اور یکساں قومی سوچ میں پرونا ہے۔
3۔تیسرا پہلو تعلیمی اداروں سے سوساٗئٹی کی لاتعلقی ہے۔قوم کے بچے یا تو پرائیویٹ سکولوں کے سسٹم کے تحت زیر تعلیم ہیں یا حکومتی اداروں کے۔ دونو ں صورتوں میں سوسائٹی کا دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔پرائیویٹ سکولوں کی کامیابی تو مالکان کی کاروباری ضرورت ہوتی ہے مگر سرکاری سکول اور مدرسے کو تاہ نظروں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ضلع یا تحصیل سطح پر پڑھے لکھے افسروں کی تعیناتی محدود اثر رکھتی ہے۔
4۔چوتھا پہلو بین الاقوامی مسابقت سے کوتاہ اندیشی ہے۔دنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد اسے ایک مستقل چیلنج کی حیثیت سے لیا جانا چاہیے ۔ ہمارے جن طلبا کو بھی بین الاقوامی سطح پر مقابلے کا موقعہ ملا انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ ہم تھوڑی سی کوشش سے اپنے نوجوانوں میں مسابقت کیلئے استعداد اور اعتمادکو بڑھا سکتے ہیں۔آج کے سائنس ، ٹیکنالوجی اور ایجادات کی دوڑکیلئے ہمارے نوجوان جو اہلیت اور تڑپ رکھتے ہیںاس کیلئے راستہ ہموار کرنا قوم کا فریضہ ہے۔ CPEC کی وجہ سے ہم ایک محنتی اور سنجیدہ قوم کے ساتھ ہمیشہ کیلئے منسلک ہوگئے ہیں لہٰذا جہاں یہ خوش آئند بات ہے وہاں نوجوانوں کیلئے نئے چیلنجز بھی سامنے آئینگے۔ہمارے بچوں کوچائنیز بھی سیکھنی چاہیے اور ہر فیلڈ میں ان سے مسابقت کیلئے تیاری بھی کرنی ہے۔ہمارا خطہ اسوقت دنیا کے فوکس پر ہے لہٰذا ہمیں کشادہ نظری سے اپنی آئندہ نسل کو تیار کرنا ہوگا۔اس مختصر سے تجزیہ کے بعد چند گذارشات بھی پیش کرنا چاہوں گا۔
1۔نصابِ تعلیم ایک کیا جائے جوکہ میری نظر میں آجکل کے انگلش میڈیم سکولوں کے قریب تر ہے۔ صرف اس میں مزید وہ اسلامی احکامات، جن کی تشریح پرکسی فرقے کو اختلاف نہیں، اور جو عموماً بلند اخلاق معاشرہ بنانے والے ہیں،انکو انٹرمیڈیٹ تک نصاب میں شامل کر دیا جائے ۔اسطرح چار کی بجائے ایک ہی کلاس پیدا ہوگی۔انٹر میڈیٹ کے بعد طالب علم جسطرف جانا چاہے جا سکتا ہے۔اگر مذہبی اعلٰی تعلیم کی طرف جاتا ہے توبھی اپنی کلاس سے جُڑا ہوا عالم با لتحقیق بنے گا۔2۔سکولوں کی مانیٹرنگ لوکل کمیونٹی بورڈ کے سپرد کی جائے۔وہ محکمہ تعلیم کو آگاہ بھی رکھیں گے،نظر انداز کئے جانے پر تنگ بھی کرینگے اور کچھ کام ازخود بھی کرینگے مثلاً کم از کم کوئی سکول واش روم وغیرہ کے بغیر نہیں رہنے دینگے۔3۔مدرسوں کو ہر طرح کی امداد پہنچانا حکومت کا فرض ہونا چاہیے البتہ کسی سکول یا مدرسے کو گریجوایٹ کلاس سے نیچے والے طلبا کے اقامتی ہوسٹل رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ خاندانی سسٹم کو بچانے اور بچوں کی کھلے ماحول میں پرورش کیلئے اہم قدم ہوگا۔ 4۔ساری زندگی بیرونِ ملک رہ کرپاکستان میں کسی آئینی عہدے کے خواہشمند لوگوں پر لازم ہو کہ وہ کسی سٹیج پر بھی کم از کم پانچ سال پاکستان میں زیر تعلیم رہے ہوں۔
شرح خواندگی برھانے کے دعوے تو آئے روز سنتے ہیں مگر ہمیں اس تعلیم کی ضرورت ہے جس میں ہمارے نوجوان انسانیت، سائنس، ٹیکنالوجی، ایجادات اور حب الوطنی میں تمام اقوام ِعالم پر سبقت رکھنے کے اہل ہوں۔

مزیدخبریں