صدر پاکستان کا کوئی قصور نہیں

صدر مملکت کا اس میں کوئی قصو نہیں انہوں نے جو فرمایا وہ حق بجانب ہیں کیونکہ ممنون حسین جس عالی شان محل میں جلوہ افروز ہیں اس کی کھڑکیوں سے قوس قزح کے بکھرے رنگ اور چار سو پھیلا سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے۔ اگر وہ اپنے محل کی بالکونی سے ایک لمحے کیلئے بھی باہر جھانکیں تو انہیں اپنے عقب میں وسیع و عریض رقبے پر پھیلا قیمتی سنگ مر مر سے مزین وزیراعظم ہائوس نظر آئے گا۔ اگر سامنے کی طرف نظر کرم اٹھائیں تو عدالت عالیہ کی بلند و بالا بلڈنگ نظر آئے گی۔ دائیں طرف دیکھنے کی زحمت فرمائیں تو کیبنٹ ڈویژن میں بیٹھنے خوشحال لوگ عوام کی قسمتوں کے فیصلے کرتے نظر آئیں گے۔ اس کے قریب ہی پنجاب سندھ خیبر پی کے اور بلوچستان ہائوسز ہیں جہاں مراعات یافتہ طبقے کی چہل پہل نظر آئے گی۔ ان لوگوں کی اجلی قبا پر کوئی داغ نہیں۔ ان کے عشرت کدوں میں عوام کی باتصویر مظلومیت کی حکایتیں ٹی وی سکرینوں کی زینت بنی نظر آتی ہیں۔ لیکن وہ انہیں دیکھنا گوارہ ہی نہیں کرتے۔ سردی کی شدت میں تڑپتے اور گرمی کی حدت سے کراہتے عوام سے انہیں کیا سروکار۔ صدر صاحب نے صرف اپنے گرد و نواح میں ہی نظر دوڑا کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لب کشائی کی ہے۔ انہیں عوامی نمائندگان کے سامنے 18 کروڑ عوام کی تصویر پیش کرنے کیلئے جھگیوں، جھونپڑیوں اور دور افتادہ قصبات میں انصاف کی منتظر، معاشی بدحالی کے شکار بند دروازوں کی درزوں میں جھانکتی وحشت زدہ آنکھوں کا جائزہ لینا چاہیے تھا، جمہوری، آزاد، مساوات اور انسانی حقوق کے دعویدار ملک کا عالم یہ ہے کہ اس کے باسیوں کی زندگیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ عذاب بن رہی ہیں۔ ان کا حال ماضی کی نسبت بے ننگ و نام ہے۔ انکی صبح نور اور شامیں بے سرور ہو چکی ہیں۔ لیکن صدر محترم نے مہنگائی، بیروزگاری کی چکی میں پستے انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے اپنے ماتحتوں کی آسودہ زندگی کی ہی تعریفیں کیں۔ جناب صدر آپ نے جس محل کی بالکونی سے باہر جھانکنا وہاں شادابیوں کا راج ہے کاش آپ خطاب سے قبل مال روڈ لاہور کے دامن میں بیٹھی نرسوںکی پکار سن لیتے۔ کاش آپ اسلام آباد کی بغل مری کی رہائشی 19 سالہ ماریہ کی پمز ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر جان دینے پر بھی کسی سے پوچھ گچھ کرتے ۔کاش آپ مغلپورہ لاہور میں گٹر میں گرنے والے رکشہ ڈرائیور کے 3 سالہ بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر انتظامیہ کی گوشمالی کرتے۔ کاش آپ ڈرون حملے کا نشانہ بنے والے اعظم کے چار یتیم بچوں کی کفالت کی بات کرتے۔ صدر محترم 18 کروڑ کیڑے مکوڑوں کو آپ سے بہت ساری توقعات تھیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک دفعہ پانامہ لیکس پر لب کشائی کرنے کے بعد آپ نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آئینی اور قانونی طور پر صدر کے اختیارات بہت محدود ہیں لیکن آپ کو حق بننے کی بجائے مرد حق بننا چاہیے۔
جناب والا: آپ کوبیرزوگاری، غربت بڑھتی خودکشیوں، امن و امان کی ابتر صورتحال، بڑھتے جرائم، تھانوں کی حالت زار اور عدلیہ کے کردار پر بھی گفتگو کرنی چاہیے تھی۔ موجودہ حکومت کے تین سال گزرنے کے باوجود ہمیں ابھرتا پاکستان نظر آیا نہ ہی لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہو رہاہے۔ مہنگائی کم ہوئی ہے نہ ہی چاروں صوبوں کے مابین محبت و ہم آہنگی کا تعلق مستحکم ہوا ہے دہشت گردی کا سیلاب تھما نہ بھارت کی بالادستی کو لگام ڈالی گئی لیکن اس کے باوجود ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ملک کی آزادی، خودمختاری کی کلغی اونچی ہو گئی ہے ہم نے سن رکھا تھا کہ جمہوریت اپنے عوام کے جذبہ و احساس سے چشم پوشی نہیں کر سکتی لیکن ہمیں جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں بے شمار مسائل نظر آ رہے ہیں ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار پرسبھی ماتم کناں ہے۔ ملکی مسائل کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کاش صدر محترم ان سارے مسائل کا ذکر کر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھاری مراعات لینے والوں کے سامنے ان کی کارکردگی عیاں کرتے۔ گزشتہ دن ساری خبروں کے درمیان سنگل کالم خبر کچھ یوں تھی۔ کہ عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر لیونل میسی کو ٹیکس ادا نہ کرنے پر 22 مہینوں کی سزا کا امکان۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد میری زبان سے بے ساختہ نکلا کاش میسی تم پاکستان میںہوتے۔ کیونکہ میسی صرف میرا ہی نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کا پسندیدہ کھلاڑی ہے۔ لیکن ہسپانوی انصاف اسے ہیرو ہونے کی بناء پر ریلیف نہیں دے گا۔ جس طرح بھارتی لوگ اپنے عظیم کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کو دیوتا کا درجہ دیتے تھے۔ بارسلونا میں اس سے بڑھ کر میسی کو یہ مقام حاصل ہے۔ ’’فیفا‘‘ ہر سال بہترین کھلاڑی کو ’’بیلف ڈی‘‘ ایوارڈ دیتا ہے۔ لیکن میسی نے 2011، 2012، 2013 میں مسلسل تین مرتبہ بہترین فٹبالر کا یہ ایوارڈ جیتا ہے جبکہ 2015 میں بھی انہوں نے یہ ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔ میسی جب تک گرائونڈ میں رہتا ہے تب تک ٹی وی کے سامنے لوگوں کا رش لگا رہتا ہے۔ اسکی ہٹ پر لوگوں کی سانسیں رک جاتی ہیں لیکن ہسپانوی انصاف اسے ریلیف دینے کیلئے تیار نہیں۔ حالانکہ اس میں میسی براہ راست ملوث بھی نہیں۔ بلکہ میسی کے والد نے اپنے بیٹے کی آمد سے بیلیز اور یورو گوئے کمپنیاں اس مقصد کیلئے بنائیں کہ وہ ٹیکس سے بچ سکیں لیکن میسی کو بھی سزا کا امکان ہے۔ کاش میسی پاکستان میں ہوتا تو اس پر بھی کوئی انکوائری کمیٹی بن جاتی اور کمیٹی اسے اس الزام سے یوں نکالتی جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے یا پھر ٹی او آر کی آڑ میں اسے التواء میں ڈال دیا جاتا۔

ای پیپر دی نیشن