کشمیر خطہ جنت نظیر صدیوں سے اسیر ہے ۔آزادی کشمیر کے لئے جوانوں نے جانیں دیں۔اس وادی گلپوش کو شہنشاہ ہند اکبر نے فتح کرکے بھارت میں شامل کیا۔یوسف چک کو قید کرکے زنداں میں ڈال دیا۔اس کی ملکی حبہ خاتون شاعرہ تھی۔خاوند کے فراق میں ذہنی توازن کھوبیٹھی۔آج بھی اس کی دردناک شاعری نالہ¿ فراق کی صورت دلوں کو دہلا دیتی ہے۔کشمیریوں پر ڈوگروں نے جو ظلم کیا تو کیا لیکن اپنوں نے بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔مغلوں اور افغانیوں نے بھی کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے ۔1947ءمیں تقسیم ہند کے موقع پر آخری انگریز وائس رائے لارڈ ماونٹ بیٹن ،مہاتما گاندھی،جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداﷲ کی ملی بھگت سے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کیا۔مجاہدین نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو جہاد کرکے آزاد کرایا۔اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق بھارت کشمیر میں رائے شماری کروانے کا پابند ہے۔بھارت کشمیریوں کے حق استصواب رائے سے مسلسل انکاری ہے۔نہ مسئلہ کا دوطرفہ حل اسے قبول ہے۔نہ ثالثی قبول ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرنے کو تےار ہے۔حال ہی میں امریکی صدر رونلڈ ٹرمپ اور ایرانی صدر حسن روحانی نے قفیہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے پیشکش کی ہے جسے بھارت نے ردکر دیا ہے ۔2 مئی 2017ءکو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی نیو دہلی میں بھارتی وزیراعظم مودی کی موجودگی میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیش کی جو قابل تحسین ہے۔انہوں نے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا بھی ذکر کیا جس پر بھارتی حکومت اور میڈیا سیخ پا ہوا۔ترکی کے صدر نے بھارت کے سکیورٹی کونسل کا مستقبل رکن بننے کی حمایت کا اعلان کیا جو پاکستان کے لئے سخت خطرہ کی بات ہے۔اگر بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کارکن بن جاتا ہے تو مسئلہ کشمیر پر وہ ہمیشہ ویٹو پاور استعمال کرکے اس مسئلہ کو ناقابل بیان حد تک نقصان پہنچائے گا۔بھارت جارح ہے۔بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے انکاری ہے ایسی صورت میں اقوام متحدہ کے باب نمبر 6 کی بجائے باب نمبر 7 کا سفارتی تعلقات منظور کرکے نایٹو فوج اس پر حملہ آور ہو کیونکہ جارح ملک کی یہی سزا ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی”را“کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے اقرار کیا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی تحری مقامی تحریک ہے اور بھارت پاکستان سے مذاکرات کرے۔بھارے میں انسانی حقوق کی پامالی اور آزادی کشمیر کے موضوع پر 4 مئی 2017 کو اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔لندن سے ممتاز کشمیری رہنما اور دانشور چیئرمین جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کونسل ڈاکٹر نذیر گیلانی نے اس کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا۔کشمیر کانفرنس میں صدر آزاد کشمیر سردار محمد مسعود خان نے بطور صدر تقریر کی۔آپ نے مسئلہ کشمیر کی صورت حال کا بڑے مدبرانہ انداز میں جائزہ پیش کیا۔مختلف پہلوو¿ں سے مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالی اور کشمیر کے الحاق پاکستان پر سیر حاصل گفتگو کی۔تقریب کے دوسرے سیشن کی صدارت سابق صدر آزاد کشمیر جنرل سردار محمد انور خان نے کی۔سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سپریم کورٹ جسٹس منظور گیلانی،سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ صدر کشمیر لبریشن لیگ جسٹس عبدالمجید ملک،حریت رہنما غلام محمد صفی اور راقم الحروف نے بطور مہمانان خصوصی خطاب کیا۔علاوہ ازیں ممتاز کشمیری رہنماو¿ں ،وکلاءاور دانشوروں نے بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا۔سابق سفیر عارف کمال،محترمہ ماریہ اقبال ترانہ،فیض نقشبندی،محمد ساگر،نورالباری مسری اظہر وانی او راکرم سہیل نے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا تاکہ عالمی جنگ اور نیوکلیئر جنگ کے خطرہ سے دنیا کو بچایا جاسکے۔جسٹس عبدالمجید ملک صاحب نے اپنے خطاب میں کشمیر لبریشن لیگ کے منشور کے مطابق ”خود مختار“کشمیر کی بات کی لیکن انہوں نے پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی جبکہ عظیم دت ایڈووکیٹ نے بھارت اور پاکستان کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور کشمیر کو ”خود مختار کشمیر“بناے کی پرزور حمایت کی ۔مقررین میں کشمیر کے”الحاق پاکستان“اور ”خود مختار کشمیر“کی حمایت میں مقررین نے دلائل دےے۔راقم الحروف نے کہا کہ میرے والد گرامی تحسین جعفری نے 1947 میں پونچھ شہر سے پاکستان ،ہجرت دوقومی نظریہ کے مطابق کی تھی اور الحاق پاکستان کے لئے کی تھی نہ کہ خود مختار کشمیر کے لئے۔ان کی شاعری کی کتاب”جنت سوزاں“میں الحاق پاکستان کی نظریہ ہے۔میری شاعری کی کتاب”شعلہ کشمیر“اور انگریزی تصنیف(The Plight Of Kashmir) الحاق پاکستان کی آئینہ دار ہے۔بیرسٹر افضل حسین کی حال ہی میں شائع ہونے والی انگریزی زبان میں کتاب(Kashmir and human Rights) الحاق پاکستان کی دستاویز ہے۔پاکستان کے خلاف تقریریں کرنے کی بجائے حکمرانوں سے مطالبہ کرو کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے عالمی سطح پر سفارتی محاذ کو تےز کریں۔اپنی کوتاہیوں کو پاکستان کے سر نہ تھوپو ،کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔”خود مختار کشمیر“کو بھارت ہڑپ کر جائے گا ۔سازش کرے گا جیسے بھوٹان اور نیپال میں کررہا ہے۔کشمیر کا قدرتی الحاق پاکستان ہے۔آزادی کشمیر کا جذبہ میری رگ رگ میں آتش سوزاں کی طرح مچل رہا ہے۔ایسا کیوں نہ ہو۔میرے والد گرمی بھڑکائی۔ان کی کشمیری زبان میں شاعری کی کتاب”پوش تھئر“(برگ گل) بھی لالہ خونین سے کم نہیں۔میں نے امسال تین کشمیر پر کانفرنسز سے خطاب کیا جن میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان، سابق وزیراطلاعات و تشریات پرویز رشید،سینٹر جنرل عبدالقیوم،وزیراعظم آزاد کشمری راجہ فاروق حیدر خان،سابق صدر آزاد کشمری میجر جنرل سردار انور خان،سابق وزیراعظم آزاد کشمری سردار عتےق احمد خان،سابق چیف جسٹس آزاد کشمری ہائی کورٹ جسٹس مجید ملک کے علاوہ حریت کانفرنس کے رہنماو¿ں نے بھی خطاب کیا۔تمام مقررین نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرے اور کشمیر میں آزادانہ منصفانہ رائے شماری کرائے۔میںنے کشمیر پر قانونی صورتحال کے ذکر کے بعد ہر تقریر میں اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر کی آزادی میرے لئے نظریاتی مسئلہ کے علاوہ جذبانی معاملہ بھی ہے۔میں نے اپنی والدہ کو زندگی بھر اپنے والدین ،بھائی بہنوں اور عزیز و اقارب کے فراق میں گریہ کناں پایا۔وہ 1948 میں والد گرامی کے ساتھ پونچھ شہر سے ہجرت کرکے آئی تھیں اور پھر زندگی بھر یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔فراق خاندان میں ہمہ وقت اشک افشاں اور نالہ کناں رہیں۔1995ءمیں وفات پائی۔گویا زندگی کے 47 سال فراق احباب و اقارب میں تصویر غم بنی رہیں ۔مجھے آج بھی ان کے سیکوں ،نالوں ،فریادوں اور آہوں نے ہمہ وقت گھیرا ہوتا ہے اور میں کشمیر کی آزادی کو حرز جاں اور سرمایہ ایمان سمجھتا ہوں۔1995ءمیں وزیراعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبدالقیوم خان کے دور میں مشیر تھا۔جس دن میری والدہ محترمہ کاانتقال ہوا اس دن کشمیر ہاوس میں والدہ محترمہ کی عیادت کے لئے بے نظیر ہسپتال مری روڈ راولپنڈی پہنچا۔ان کے کمرے میں ڈاکٹر تھے اور وہ عالم نزع میں تھیں۔میرے لیے ان کو اس حالت میں چھوڑ کر کشمیر ہاوس جانا کار محال تھا۔ماں آخری سانسوں میں تھی لیکن دوسری طرف”مادر وطن“میں سفارت کاروں کو کشمیر پر بریفنگ دے رہا تھا کہ بڑے بھائی میجر رفیق جعفری کا فون آیا کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔سفارت کار حیرت زدہ ہوئے۔پوچھا کیا معاملہ ہے کہا والدہ انتقال کرگئیں۔کہنے لگے یہ میٹنگ پھر بھی ہوسکتی تھی آپ یہاں کیوں آئے۔کہا مادر سے زیادہ مادر وطن اہم ہے۔