لاہور (بی بی سی) پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز ہوا ہے جس کا ابتدائی نام 'فروٹ بین' ہے۔ اس مہم میں عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ دو سے لے کر چار جون تک کوئی بھی پھل نہ خریدے تاکہ پھل فروخت کرنے والے قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہو جائیں۔سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی یہ مہم اب پورے پاکستان میں زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں لوگ پھلوں کی مہنگی قیمتوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور بہت سے لوگوں نے اس تین روزہ مہم میں شامل ہونے کے خواہش ظاہر کی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس مہم کے ایک حامی فرید رزاقی نے بتایا کہ مہم شروع کرنے کے پیچھے بنیادی سوچ یہ تھی کہ یورپی ملکوں کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کس طرح وہاں کی عوام یکجا ہو کر اپنے حقوق کی لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: 'جب وہاں مہنگائی ہوتی ہے وہ لوگ اس چیز کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں تاکہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے افراد اور منافع خوروں کو نقصان پہنچے جس سے تنگ آ کر وہ اشیا کی قیمتیں معمول پرلے آئیں۔ ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے۔''پاکستان میں پہلی بار کسی ایسی مہم کا آغاز ہوا ہے اور اب ہماری کوشش ہے کہ سوشل میڈیا کہ ذریعے عوام کو یکجا کر کے رمضان کے مہینے میں پھلوں کی قیمتوں میں کمی لائیں۔ اب تک ہمیں کافی حوصلہ افزا نتائج ملے ہیں، امید ہے کہ لوگ اس مہم کو کامیاب بنائیں گے۔'دوسری جانب جب پھل فروشوں سے مہنگی قیمتوں کی وجہ معلوم کریں تو وہ مارکیٹ ریٹ کی دہائی دیتے ہیں۔ایک پھل فروش نے بی بی سی کو بتایا: 'ہم جب منڈی سے فروٹ لاتے ہیں تو ہمیں وہیں سے مہنگا ملتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم پھل اور سبزیاں دونوں حکومتی نرخ نامے کی حساب سے ہی بیچ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی کوئی خاص منافع نہیں ہو رہا۔ جب ڈیمانڈ بڑھ جائے اور مارکیٹ میں پھل ہی کم ہوں تو ریٹ تو بڑھ ہی جاتا ہے اور ہر سال رمضان میں یہی ہوتا ہے۔'یوں تو پورا سال ہی پھل سستے نہیں ہوتے لیکن ان کے مہنگے ہونے کا زیادہ احساس رمضان میں ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پھل اور سبزی کا اصل ریٹ تو منڈی میں بنتا ہے جہاں کسان خون پسینے سے سینچی ہوئی فصل پھل فروش کو بیچتا ہے۔اس مہنگائی کا ذمہ دار بھلے جو بھی ہو، کسان، پھل فروش یا حکومت۔ ہر صورت میں خمیازہ عوام ہی کو بھگتتا پڑتا ہے۔
”فروٹ بین مہم“ مہنگائی کا ذمہ دار جو بھی ہو‘ خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے
Jun 03, 2017