انتخابات کے حوالے سے اگر کنفیوژن یا ذہنی الجھائو ہے تو یہ کچھ ایسا بلاجواز بھی نہیں ہے۔ نگران وزیراعظم ناصرالملک نے کہا ہے کہ انتخابات بروقت اور شفاف ہونگے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمشن کی مدد کریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے دو ٹوک انداز سے کہا انتخابات کے انعقاد کیلئے 25 جولائی فائنل‘ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ان دو اعلیٰ ترین شخصیات کی یقین دہانیوں پر یقین ہی کیا جانا چاہئے‘ تاہم کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی نے تو انتخابات ملتوی کرانے کیلئے باقاعدہ قرارداد منظور کی کہ جولائی میں بہت سے لوگ حج پر ہونگے‘ نیز سیلاب کا بھی کئی علاقوں میں خدشہ ہے۔ پھر سابق وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویزخٹک نے الیکشن کمشن کو جو مراسلہ بھجوایا ہے اس نے بھی کچھ شک کی درزیں کھولی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے قصور‘ شیخوپورہ‘ بہاولپور‘ ہری پور‘ گھوٹکی اور خاران کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دیدی ہیں جبکہ منگل کے روز جہلم‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جھنگ اور لوئر ٹوپہ کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دی گئی تھیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 108درخواستیں زیرسماعت جبکہ 31 درخواستوں کی مزید سماعت ہوگی۔ اب الیکشن کمشن ان کی ازسرنو حلقہ بندیاں کرے گا یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائے گا اور اگر سپریم کورٹ نے ان حلقہ بندیوں کو برقرار رکھا تو ان سے جن لوگوں کو زیادتی‘ ناانصافی کی شکایت پیدا ہوئی ہے‘ ان کا ازالہ کیسے ہوگا۔ دوبارہ حلقہ بندیوں کا کام 6 جون سے پہلے کرنا ہوگا کیونکہ یہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ ہے۔ دوسرا مسئلہ جو الیکشن کمشن کو درپیش ہو گیا ہے‘ وہ ہے نامزدگی فارم میں بہت سی شقوں کا کا نکال دیا جانا جس کے نتیجے میں کوئی مجرم‘ سزا یافتہ‘ ٹیکس نادہندہ‘ اثاثے ظاہر نہ کرنے والا بھی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے یہ شقیں نامزدگی فارم میں دوبارہ ڈالنے کا حکم دیا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ الیکشن کا ماحول نہیں بن رہا کیونکہ لوگوں کو حلقوں کا پتہ ہی نہیں ہے۔ یہ ہے وہ صورتحال جس کے باعث الیکشن کے 25 جولائی کو انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں اور اگر آئندہ ترپن‘ پچپن روز میں یہ سارے معاملات نمٹائے جا سکتے ہیں تو 25 جولائی کو الیکشن کے انعقاد میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم میری نگاہ میں پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہ کافی حد تک اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ جتنا وقت انہوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں پر صرف کیا‘ ایک دو گھنٹے بھی انتخابی اصلاحات کیلئے مل بیٹھنے کی توفیق نہ پا سکے۔ (ن) لیگ کیلئے بڑی خبر یہ ہے کہ سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی سپریم کورٹ نے ختم کر دی ہے۔ اس پر خواجہ آصف اور میاں نوازشریف کی نااہلی کے حوالے سے فرق کا سوال پیدا ہوا ہے۔ ان دونوں معاملات میں فرق یہ ہے کہ خوجہ آصف نے اقامہ کے ذریعے حاصل شدہ آمدنی کو کاغذات نامزدگی میں شامل نہیں کیا تھا‘ تاہم انہوں نے ایف بی آر میں اسے ظاہر کیا اور ٹیکس بھی ادا کیا تھا جبکہ میاں نوازشریف پر الزام ہے کہ انہوں نے کالے دھن سے بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں۔ ادھر سابق گورنر پنجاب ذوالفقار کھوسہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ ایک مدت سے (ن) لیگ سے وہ فاصلے پر تھے۔ کہاجاتا ہے (ن) لیگ سے تعلقات ان کے بیٹے دوست کھوسہ پر اداکارہ سپنا کے قتل کے الزام میں مدد نہ کرنے پر (ن) لیگ سے فاصلوں نے جنم لیا تھا۔ عمران خان نے بھی ددوست کھوسہ کو پی ٹی آئی میں شمولیت سے روک دیا ہے۔ اس کی وجہ فاروق بندیال کے حوالے سے آنے والا ردعمل بتایا گیا ہے۔ عمران خان نے دوست کھوسہ کو اپنے ساتھ پریس کانفرنس میں کھڑا ہونے سے بھی روک دیا جب اداکارہ شبنم کے ساتھ فاروق بندیال کی جانب سے زیادتی کا واقعہ ہوا ۔ مجھے شوبز کے معروف صحافی ریاض الرحمن ساغر نے ٹیلیفون پر تفصیلات سے آگاہ کیا اور جب سنگین سزا سنائی گئی تو فاروق بندیال کی والدہ نے جا کر شبنم کے پائوں پکڑے تھے۔ تب میں نے روزنامہ مغربی پاکستان میں لکھا تھا ’’یہ کتنی بدقسمتی ہے ایک بیٹے کی لمحوں کی لغزش نے انتہائی معزز خاندان کی ماں کو ایک اداکارہ کے قدموں جھکا دیا ہے۔‘‘ فاروق بندیال کیلئے سزا سے بڑھ کر یہ احساس روحانی اذیت کا باعث ہونا چاہئے اگر اس بدقماش بیٹے میں ماں کی حرمت کا ذرا سا بھی احساس ہے۔ اب میں سوچ رہا ہوں جب اداکارہ سپنا کے حوالے سے دوست کھوسہ کو تحریک انصاف میں لینے سے انکار کیاگیا تو میرے انتہائی محترم سردار ذوالفقار کھوسہ پر کیا گزری ہوگی۔ دعا کرنی چاہئے بیٹے والدین کیلئے راحت کا سامان بنیں‘ شرمندگی کا باعث نہ ہوں۔ دریں اثنا پاکستان اور بھارت کے مابین 2003ء میں کنٹرول لائن پر فائربندی کا معاہدہ ہوا تھا مگر اپنی فریب دہی کی عادت کے عین مطابق گزشتہ پندرہ سال میں بھارت معاہدہ کی لاتعداد خلاف ورزیاں کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے اگرچہ عالمی دبائو کے تحت بھارت اسی پرعملدرآمد کیلئے آمادہ ہوا ہے مگر پاکستان میں عوامی سطح پر اس پر کم کم ہی یقین کیا جا رہا ہے۔ بہرحال دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کے مابین بدھ کے روز ہاٹ لائن پر خصوصی رابطے میں طے پایا سیز فائر معاہدہ کی پاسداری کی جائے گی اور بالخصوص شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان کیلئے حقیقی مسئلہ یہی ہے کہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیری مسلمان آباد ہیں اور بھارتی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری کے جواب میں پاک فوج کو یہ احتیاط دامنگیر رہتی ہے کہ انہیں جانی و مالی نقصان سے بچایا جائے۔ دوست ملک چین نے سیز فائر معاہدہ پر عملدرآد پر اتفاق کا خیرمقدم کیا ہے‘ لیکن بھارت ہرلحاظ سے ناقابل اعتبار ہے۔ اس بات کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ جس روز بھارت نے فائربندی معاہدہ کی پاسداری پر سمجھوتہ کیا‘ اسی روز بھارت کے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے پاکستان پر دہشت گردوںکی حمایت کا بھونڈا الزام لگایا دیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اور اس سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے وہ کنٹرول لائن پر بلاجواز و بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرتا رہتا ہے۔ شدید عالمی دبائو ہی بھارت کو اس پاسداری پر مجبور کر سکتا ہے۔ بھارت سے ازخود خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ فائربندی معاہدہ کی پاسداری پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کیلئے بھی ضروری ہے کیونکہ سیکرٹری الیکشن کمشن بابر یعقوب نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں 28 مئی کو کہا تھا کہ سکیورٹی خطرات الیکشن کمشن کیلئے بڑی پریشانی کا باعث ہیں۔ بعض عالمی طاقتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ پولیس کی سکیورٹی ناکافی ہے۔ صوبوں کی طرف سے بھی فوج کو بلانے کا مطالبہ آرہا ہے۔اب ظاہر ہے اگر بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو ہزارں کی تعداد میں فوجی جوانوں کو الیکشن سکیورٹی کیلئے فارغ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے پاک فوج کو جو حکم ملے گا‘ اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
بروقت انتخابات‘ یقین دہانیاں اور خدشات!
Jun 03, 2018