بھارت میں قیام کے دوران مجھے فتح پو ر سیکری بھی جانے کا موقعہ ملا۔ آگرہ میں تا ج محل دیکھنے کے بعد جب دہلی واپس جانے لگے تو ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر فتح پور سیکری ہے، جہاں جید بزرگ حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار ہے۔جنہوں نے اس خطے میں دین اسلام کی ترویج کے لیے بے مثال کام کیا۔حضرت شیخ سلیم چشتیؒ ہی وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں تاریخی کتابوں میں بار ہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ شہنشاہ اکبر اعظم کو اولاد نرینہ اور وارث تخت شہزادہ سلیم (جو بعد میں جہانگیر بادشاہ بنا) انہی بزرگ کی دعائوں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عطا کیا۔میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ سیکری کی یہ مسافت کتنے وقت میں طے ہو گی اس نے بتایا کہ تقریباً چالیس منٹ میں۔ ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ فتح پور سیکری کا شہر کنواہا کے قریب ہے۔ کنواہا وہ جگہ ہے جہاں مغلیہ سلطنت کے بانی بابر نے راجپوت "راجہ رانا سانگا"کو فیصلہ کن شکست دی ۔ چودھویں صدی تک یہ علاقہ راجپوتوں کی حکمرانی میں رہا۔رانا سانگا کی شکست کے بعد یہ مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا۔سیکری ایک چھوٹی‘ لیکن بلند پہاڑی چوٹی کا نام ہے۔ عظیم صوفی بزرگ حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ نے اپنا قیام اسی پہاڑی ٹیلے پر کیا اور یہاں ہی آپ کا مزار ہے۔اکبر اعظم جب گجرات فتح کر کے واپس لوٹا تو اجمیر شریف میں منت کے مطابق حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے مزار پر حاضری دی اس موقع پر اس نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسے وارث تخت دے۔ کہتے ہیں کہ اکبر کو خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ ننگے پائوں سیکری جائے اور حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے ہاں حاضر ہو کر دعا کرائے اس نے ہدایت پر عمل کیا وہاں حاضری دی اور دعا کرائی۔ اکبر اعظم کی ہندو رانی جودہا بائی کے بطن سے شہزادہ سلیم پیدا ہوا جو بعد میں جہانگیر بادشاہ کے لقب سے ہندوستان کا حکمران بنا۔(جہانگیر کا مزار لاہور میں ہے)اکبر اعظم نے سیکری کو خوش بختی کی علامت سمجھتے ہوئے اپنا دارالحکومت دلی سے سیکری منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ گجرات کی فتح کی خوشی اور یادگار کے طور پر اکبر نے نئے دارالحکومت کا نام فتح پور رکھا۔ فتح پور شہر سیکری پہاڑی کے خوبصورت دامن میں آباد کیا گیا۔فتح پور سیکری کا عظیم شہر اور نیا دارالحکومت پچاس سال کے عرصے میں پینے کے پانی کی کمی کی وجہ سے بے آباد ہونے لگااور دارالحکومت کو واپس دلی منتقل کرنا پڑا۔آگرہ سے فتح پور سیکری تک کا راستہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے ملتان ڈویژن کے اضلاع وہاڑی اور پاک پتن سے ملتا جلتا ہے۔ فتح پور سیکری کا علاقہ اس بڑے قلعے کے حصار میں ہے یہ قلعہ سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ فتح پور کا قلعہ دہلی کے لال قلعے کی طرز پر تعمیر کیا گیا۔ قلعہ کی تین اطراف حفاظتی دیواریں بنائی گئی ہیں۔ چوتھی جانب ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی۔آج کے دور میں فتح پور سیکری کی سب سے بڑی کشش حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا مزار مبارک ہے۔ قلعے کے اندر ایک عظیم الشان مسجد کے احاطے میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا مزار ہمہ وقت ہزاروں زائرین سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔زائرین کی زیادہ تعداد نوجوان خواتین کی ہے ، گائیڈ بتا رہا تھا کہ خواتین کی اکثریت یہاں اولاد نرینہ کے لئے منت ماننے آتی ہے۔ چھتری کی شکل میں تعمیر کیے جانے والے مزار کے کمرے میں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کی قبر ہے۔حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار خوبصورت سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور قبر کے گرد نصب سنگ مرمر میں خوبصورت موتی بھی نصب ہیں۔ مزار کی اندرونی چھتری صندل کی لکڑی کی بنی ہے اور اس پر سیپ اور موتیوں کی کلاکاری ہے۔اکبر اعظم نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒسے عقیدت کے اظہار کے لیے ان کا شاندار مزار تعمیر کروایا۔ یہ مزار اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ اپنی زندگی میں جس پہاڑی ٹیلے پر ایک جھونپڑی میں رہا کرتے تھے لیکن جہانگیر بادشاہ نے مزار کے سرخ پتھروں کی جگہ راجھستان کا سفید سنگ مرمر لگوایا۔ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے مزار کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ جامع مسجد سے ملحقہ صحن میں ایک خوبصورت جھونپڑی نظر آئے۔مزار کے ستون اس طرح تعمیر کیے گئے ہیں کہ دور سے وہ موٹی موٹی رسیاں نظر آتی ہیں۔حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار پر بیک وقت مسلمان، ہندو، عیسائی اور پارسی حاضری دیتے اور منت مانتے نظر آتے ہیں ۔مسجد کے دالان میں مزار کے سامنے خوبصورت فوارا ہے۔مزار کے اوپر چاروں اطراف خوشنما برجیاں بنائی گئی ہیں۔ جس میں مشعلیںاور موم بتیاں روشن کی جاتی تھیں۔ گائیڈ نے یہ بھی بتایا کہ اکبر بادشاہ اور شہنشاہ جہانگیر اپنے دور اقتدار میں اکثر و بیشتر مزار پر حاضری دیا کرتے تھے اور ملحقہ جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے آیا کرتے تھے۔حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار کے احاطے میں ایک سرنگ کا دروازہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سرنگ سیکری سے آگرہ قلعے تک جاتی تھی۔ اس کی لمبائی نوے کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ اب یہ سرنگ بند ہو چکی ہے۔ تاہم اس کا دروازہ زائرین کے لیے کھلا ہے۔فتح پور سیکری کے شہر اور قلعے کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کے بنائے ہوئے قلعے اور ان کے دور کی تمکنت سبھی کچھ ملیا میٹ ہو چکی ہے اور اب اس کے آثار باقی ہیںلیکن روحانی بزرگ اور برگزیدہ شخصیت حضرت خواجہ سلیم چشتیؒ کی جائے مراقبہ اور ان کے جسد خاکی کا مقام (درگاہ) ابھی بھی ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعے ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی فیض کا منبع ہے ۔ دوسری جانب قریب ہی فتح پور سیکری کے شاہی قلعے اور محلات کے کھنڈرات ہیں جو ماضی کے عظیم حکمرانوں کی یاد دلانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا مظہر بھی ہیں کہ نہ تو کوئی بادشاہت دائمی ہے اور نہ ہی انسان اور اس کا مرتبہ۔ سب فانی ہیں۔