مظفر آباد (نمائندہ خصوصی) حکومت آزاد کشمیر نے یکطرفہ طور پر آئینی ترامیم منظور کر کے غیر جمہوری طرزعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ نہ اتفاق رائے سے منظور کردہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کا مسودہ پیش کیا نہ ہی حکومت پاکستان کی رضامندی حاصل کی گئی۔ آئینی ترامیم سے تقسیم کشمیر کی بو آتی ہے۔ عوامی نمائندوں سے ترمیم کا حق چھین کر ایگزیکٹو کو دیا گیا ہے۔ 35 ارکان کونسل و اسمبلی مسلم لیگ ن و اتحادی آئینی ترامیم کا حصہ بنے ہیں۔ اپوزیشن نے بائیکاٹ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی تقسیم کشمیر کے فارمولا میں شامل ہے نہ ہی آئینی کام کو غیر آئینی طریقہ سے کرنے کے عمل کی حمایت کرتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان صدر مسلم کانفرنس‘ چودھری محمد یاسین رہنما پی پی پی آزاد کشمیر و قائد حزب اختلاف قانون ساز اسمبلی عبدالماجد خان پارلیمانی لیڈر پی ٹی آئی آزاد کشمیر نے دیگر اپوزیشن ممبران کے ساتھ میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا۔ سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعدوفاقی کابینہ کسی آئینی ترامیم کے مسودہ سمیت کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے اس اقدام کو کوئی شہری چیلنج کر سکتا ہے۔ آخر کیا مجبوری تھی کہ دو برس اطمینان کے ساتھ رہنے کے بعد جلدی دکھائی گئی۔ اپوزیشن اچھے اقدامات میں حکومت کو سپورٹ کرتی اور جن پر خدشات ہیں ان پر اپنی رائے دیتی۔ موجودہ حکومت آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہی ہے۔ ایسی آئینی ترامیم یکطرفہ ہیں جن کے منفی اثرات جلد قوم محسوس کرے گی۔ چودھری محمد یاسین قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ حکومتی طریقہ کار درست نہیں ہے اور نہ ہی آئینی ترامیم کے لئے آئین کی منشا کے مطابق اس کے تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔ عبدالماجد خان نے کہا کہ مشترکہ اجلاس ختم کر دیا گیا ہے۔ 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مزید اقدامات کے لئے مشاورت کرے گی۔