اسلام آباد (اے پی پی) 80سال بعد 2100ء تک ہمالیہ اور ہندوکش کے 36 فیصد گلیشیئرز ختم ہو جائیں گے۔ انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ کے بین الاقوامی مرکز سے وابستہ ماحولیات کے ماہرین نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیہ اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں میں واقع گلیشیئرزکو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو ان گلیشیئرزکا دو تہائی حصہ ختم ہو سکتا ہے۔ مزید برآں رواں صدی کے دوران اگر دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر دیا جائے تو پھر بھی ان گلیشیئرزکا ایک تہائی حصہ ختم ہو جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہ گلیشیئرز8 ممالک میں رہنے والے تقریبا 25 کروڑ افراد کے لئے پانی کی فراہمی کا ایک اہم ترین ذریعہ بھی ہیں۔ کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند و بالا چوٹیاں بھی ہمالیہ اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں کا حصہ ہیں اور قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ برف انھی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے باعث یہ برفانی میدان ایک صدی سے بھی کم عرصے میں خالی چٹانوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آنے والی چند دہائیوں میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے برف پگھلنے کا عمل مزید تیز ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان تبدیلیوں سے متاثرہ علاقہ کا رقبہ تقریباً 3500 کلومیٹر ہے جو افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان میں واقع ہے۔ ہمالیہ اور ہندوکش کے گلیشیئرزدنیا کے اہم ترین دریاؤں گنگا، سندھ، ییلو، می کانگ اور اراوادی کو پانی مہیا کرنے کے علاوہ، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اربوں لوگوں کے لئے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدن کا بھی ذریعہ ہیں۔ سائنسدانوں اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں صرف پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کو ہی نہیں بلکہ دریائوں کے گرد رہنے والے تقریباً ایک ارب 65 کروڑ لوگوں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوں گی جو سیلاب اور فصلوں کی تباہی کی وجہ سے غیر محفوظ ہو جائیں گے۔