3 جون 1947ء …ایک تاریخ ساز دن‘ جب ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا اور اس طرح دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی قانونی بنیاد رکھ دی گئی۔ اسی دن برطانیہ کے آخری وائسرائے نے متحدہ ہندوستان کے عوام کو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے خطاب کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائداعظم محمد علی جناح اور ہندوئوں کی جماعت آل انڈیا کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی آل انڈیا ریڈیو دہلی سے اپنی اپنی قوم کو خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔ سکھوں سے ان کے لیڈر سردار بلدیو سنگھ نے خطاب کیا۔ یوں کانگرس نے عملاً تسلیم کر لیا کہ وہ برصغیر کے صرف ہندوئوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ ایک مرتبہ قائداعظم نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’مسٹر گاندھی کیوں تسلیم نہیں کرلیتے کہ وہ ہندوئوں کی بھاری اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہ کہتے ہوئے کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کہ میں مسلمان قوم کا نمائندہ ہوں۔‘‘ یہ وہ دور تھا جب ہندو کانگرس مسلمانوں سمیت برصغیر میں آباد تمام قوموں کی نمائندگی کا دعویٰ کیا کرتی تھی لیکن 3 جون 1947ء کو قائداعظم نے کانگرس کے اس دعوے کی دھجیاں اڑا دیں اور ان مٹھی بھر مسلمانوں کو جو کانگرس کا دم بھرتے تھے احساس دلایا کہ کانگرس میں ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں۔ وہ امت مسلمہ میں بھی شامل نہ ہوں گے بلکہ آزادی کے بعد وہ جعفر و صادق کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔
3 جون کو اسی ہندو کانگرس نے جو ہندوستان کی تقسیم کو گئوماتا کے ٹکڑوں سے تشبیہ دیا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کو منظور کر لیا لیکن ساتھ ہی منظوری کی قرار داد میں کہا کہ جب حالات اعتدال پر آجائیں گے تو تقسیم ہند کے حامیوں کو اپنی ’’غلطی‘‘ کا احساس ہوجائے گا اور ہندوستان ایک بار پھر اکھنڈ (متحد) ہوجائے گا۔ یوں اس نے اپنی سیاسی کوتاہ بینی کا ثبوت مہیا کر دیا۔ اس کے پس پردہ بھی انگریزوں کی بہت بڑی سازش تھی جو اوّل تو قیام پاکستان کے ہی خلاف تھے اور جب انہیں قائداعظم کے مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا تو کوشش یہ ہونے لگی کہ کم سے کم علاقہ پاکستان کے حصے میں جائے۔ چنانچہ بائونڈری کمیشن کے فیصلوں کو تبدیل کرکے مسلم اکثریت والے اضلاع بھارت کو دے دئیے گئے۔ صوبہ سرحد جیسے بھاری مسلم اکثریت کے صوبے میں ریفرنڈم کرایا گیا لیکن قائداعظم نے انگریزوں کو تقسیم ہند کے فیصلے سے انحراف کا کوئی موقع نہ دیا۔ مائونٹ بیٹن اور ہندو کانگرس کی سازش تھی کہ ہندوستان کا آخری وائسرائے ہندوستان اور پاکستان دونوں کا مشترکہ گورنر جنرل بنے۔ مائونٹ بیٹن نے کھل کر قائداعظم سے کہا کہ وہ پاکستان کا گورنر جنرل بھی انہیں ہی بنائیں۔ کانگرس کے ساتھ اس کی یہ ساز باز ہوچکی تھی کہ وہ پاکستان کا گورنر جنرل بن کر ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ یہ ملک چھ ماہ بھی نہ چل سکے گا اور خود کانگرس سے درخواست کرے گا کہ اسے دوبارہ ہندوستان میں شامل کر لیا جائے۔ لیکن سیاسی بصیرت و بصارت کے حامل قائداعظم سے یہ سازشیں کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کرکے انگریز ہندو گٹھ جوڑ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ آزاد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل وہ خود ہوں گے۔ ہندوئوں کو قوی اُمید تھی کہ مائونٹ بیٹن کانگرس کے ایجنٹ کا کردار ادا کرے گا چنانچہ ہندوستان کے یوم آزادی پر ’’پنڈت مائونٹ بیٹن کی جے‘‘ کے نعرے بلند ہوتے رہے لیکن جب انگریز اور ہندو کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے تو دونوں کو سانپ سونگھ گیا۔ جب پاکستان پر ان کا کوئی دائو نہ چل سکا تو انہوں نے کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ کو اُکسایا کہ وہ کسی اخلاق یا قانون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کشمیر کا الحاق بھارت سے کردے۔ چنانچہ اسلام دشمن راجہ کانگرس اور انگریزوں کے چکر میں آگیا اور اس نے بھارت کے ساتھ غیر قانونی اور غیر فطری الحاق کا فیصلہ کر لیا لیکن کشمیریوں کو بھی اس سازش کی خبر مل چکی تھی لہٰذا انہوں نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے۔ یوں کشمیر کو ہضم کرنے کا کانگرس کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ کشمیریوں نے نہ صرف اپنی ریاست کے ایک حصے کو آزاد کرا کے وہاں اپنی حکومت قائم کر لی بلکہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اب وہاں تحریک آزادی زور شور سے جاری ہے۔ کشمیری عوام کی خواہش ہے کہ ان کی ریاست کا الحاق پاکستان سے ہو ان کا یہ مطالبہ برطانوی پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون آزادیٔ ہند کی روح اور منشا کے عین مطابق ہے۔
کانگرس نے سوچا تھا کہ پاکستان مائونٹ بیٹن کی یقین دہانیوں کے مطابق چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک نہ چل سکے گا۔ اس لیے چھ ماہ تک کشمیری مجاہدین کا مقابلہ کر لینا چاہیے لیکن جب پاکستان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور بالآخر وہ دُنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا تو ہندو کو احساس ہوا کہ وہ کتنی بڑی خوش فہمی میں مبتلا تھا۔ آج کشمیری حریت پسندوں کی جنگ آزادی بھارت کے ہندو حکمرانوں کے لیے استرے کی مالا بن چکی ہے جسے وہ نہ گلے میں پہن سکتے ہیں نہ اُتار کر پھینک سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی رائے عامہ اسے کشمیر سے نکلنے پر مجبور کرتی رہے گی اور وہ دن دور نہیں جب اسے نہ صرف کشمیر سے دستبردار ہونا پڑے گا بلکہ خود بھارت کے اندر ایک اور مسلم انڈیا کے نعرے کا سامان کرنا پڑے گا جس کا جواز اس نے مسلم کش فسادات کے ذریعہ خود مہیا کر دیا ہے۔ جو صورتحال قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں تھی وہی صورت حال آج پھر درپیش ہے۔ گجرات اور احمد آباد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔ انہیں زندہ جلایا گیا ‘ ان کی املاک تباہ کی گئیں اور بچے کھچے مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کر دیا گیا ۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 35 کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور شہریت ترمیمی بل کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، ایسے میں بھارتی مسلمان اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہاں ایک تحریک کا آغاز ہو چکا ہے جو انشاء اللہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر ختم ہو گی اور وہاں ایک نیا پاکستان جنم لے گا۔ آج تقسیم ہند کی مخالف مسلم قوتیں بھی قائداعظم کی عظمت ودوراندیشی کا اعتراف کررہی ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں شکریہ قائداعظم۔
اگر ہندو کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں دس کروڑ مسلمان پاکستان بنا سکتے تھے تو آج کے بیس کروڑ مسلمان مسلم انڈیا کیوں نہیں بنا سکتے؟ آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو مسلم انڈیا کا نعرہ لگانا ہی پڑے گا۔ اس نعرے کی تکمیل میں جون کی تین تاریخ کا کتنا کردار ہوگا اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرسکتا ہے۔
3 جون 1947ئ…ایک تاریخ ساز دن
Jun 03, 2020