اٹل اور ناگزیر موت کا خطرہ مول لے کر موت سے حفاظت کی خواہش موہوم کو ریورڑ کی (Herd Immunity) یامدافعت قرار دیا جاتا ہے جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے جو بچ گیا سو بچ گیا جو مرگیا سو مرگیا۔ محشر بدایونی نے نصف صدی پہلے اس ظالمانہ فلسفے کو کچھ یوں بیان کیا تھا ۔ وہی بدایوں جس کے سید سادات کا تعزیہ اور کھوئے کے پیڑے اب بھی چہار دانگ شہرت رکھتے ہیں ۔اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائیگا۔ 22 کروڑ عوام میں سے صرف دس لاکھ کی قربانی د یکر اور باقیوں کو بچالیا جائے یعنی جو جسمانی قوت مدافعت کے لحاظ سے طاقتور ہوں گے وہ بچ جائینگے، بوڑھے، سانس کی بیماریوں میں مبتلا اور دیگر امراض والے چل بسیں گے، افرادی اکثریت کی اجتماعی مدافعت حملہ آور بیماری کو موت کے گھاٹ اتار دیگی۔70 فیصد آبادی متاثر ہو، پھر ہرڈ امیونٹی کے ثمرات ملیں گے بس تجربے کا دریا ہے، پار اتر گیا تو قسمت ورنہ تقدیر کا لکھا یہی تھا۔
کورونا موذی وائرس سے زندگی کی حفاظت کے لئے نت نئے جتن جاری ہیں۔ بارہ سے اٹھارہ ماہ دور کورونا علاج یا ویکسین کی اطلاعات نے دنیا کو متبادل راہیں تلاش کرنے پر اکسایا تاکہ وہ موت کی آغوش میں جانے سے بچ جائے۔ ان میں سے ایک ہرڈ امیونیٹی ہے۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ویکسین نہیں آجاتی، اس وقت تک قدرتی نظام پر بھروسہ کیاجائے جو ہر جسم میں قوت مدافعت کی صورت میں دستیاب ہے لیکن اس پر کئی سوال اور خطرات ہیں۔ ہم دم دیرینہ عدنان رحمت سے گذشتہ مہینوں پہلی بار انسان کی اجتماعی قوت کی فسوں کاریوں کا افسانہ سنا لیکن طبعی تجاہل عارفانہ نے متوجہ نہ ہونے دیا اب عید کے بعد اپنے ڈاکٹر عمران خان نے دوبارہ پاکستان کے کرونا سے وابستہ دکھوں کا آخری حل (Herd Immunity) کو قرار دیا تو عدنان رحمت کا فلسفہ یاد آگیا ۔
ہرڈ امیونٹی‘ ایک بار پھر انسانوں کو اللہ تعالی کے سچے کلام کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اللہ تعالی نے انسانی جسم کا شاہکار تخلیق کیا تو اسکی حفاظت کیلئے ایک مضبوط اور حیرت انگیز دفاعی نظام بھی قائم فرمایا۔ یہ نظام قوت مدافعت کہلاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں جب کوئی بیماری یا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو جسم اس وائرس کے خلاف ایک فوج تیار کرتا ہے جسے ’اینٹی باڈیز‘ یا سپاہ مخالف کہاجاتا ہے۔ یہ مخالف سپاہ جسم کو نقصان پہنچانے کیلئے آنیوالے وائرس سے لڑائی کرتی ہے۔ ’دراندازی‘ کرنے والے وائرس یا بیماری کو قتل کرنے والی یہ طاقت ور ’اینٹی باڈیز‘ دیگر انسانوں میں منتقل کردی جاتی ہیں تاکہ دیگر جسم بھی اس متعلقہ وائرس یا بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ ’ہرڈ امیونٹی‘ کا مقصد اکثریتی آبادی کی اجتماعی قوت مدافعت استعمال کرکے وائرس کو شکست دینا ہے۔ اس طریقہ کار پر شدید تنقید اورتحقیق دونوں جاری ہیں۔ تادم تحریر دنیا میں ایسی تحقیق یا مطالعہ موجود نہیں یہ خیال ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز کیاجارہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت پر ’ہرڈ امیونٹی‘ کے اصول کے اطلاق کا الزام لگایا جارہا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی باضابطہ طورپر اس کو قبول نہیں کیا۔ پاکستان میں سردست کورونا کے خلاف جنگ کے کماندار وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کوآرڈینیشن اور رساپنس کے ادارے (این۔سی۔او۔سی) کے سربراہ اسدعمر نے مسکراتے ہوئے ’ہرڈ امیونٹی‘ کے اصول کو مسترد کیاہے۔ جب ان سے اس بارے پوچھاگیا تو ان کا فرماناتھا کہ موجودہ حالات میں اس طریقہ کار کو بروئے کار نہیں لایاجاسکتا۔ حیرت میں ڈوبے اسد عمر نے سوال پوچھنے والے سے ہی یہ سوال کیا کہ ’’یہ باتیں آخر کون پھیلاتا ہے؟‘‘
دنیا میں جدید تحقیق کا بنیادی نکتہ کورونا کا نشانہ بنی آبادی کی حقیقی تعداد کا تعین کرنا ہے۔ سرکاری طورپر دستیاب اعدادوشمار مرض کے پھیلائو کی حقیقی تصویر پیش نہیں کرتے۔ تحقیق کاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہرڈ امیونیٹی‘ (Herd Immunity) یعنی جتھے یا ریوڑ کی صورت میں رہنے والی آبادی میں یہ وائرس وسیع پیمانے پر نہیں پھیلتا لیکن ان میں کورونا وائرس کے پھیلائو کی حد کیا ہے؟ یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں۔ کئی ماہرین کے مطابق یہ شرح 60 فیصد سے زائد ہے۔
تازہ تحقیق کے دوران دنیا کے مختلف شہروں کا تجزیہ کیاگیا۔ہرڈامیونٹی کے اصول کے تحت ان شہروں میں ’اینٹی باڈیز‘ سے متعلق جو شرح نکالی گئی، اس کے مطابق 2 مئی کو نیویارک شہر میں 19.9 فیصد، 21 مئی کو لندن میں 17.5 فیصد اور 13 مئی کو میڈرڈ میں 11.3 فیصد اینٹی باڈیز پائی گئیں۔ تحقیق کے مطابق 20 اپریل کو ووہان چین میں اینٹی باڈیز کی شرح 10 فیصد ، 15 مئی کو 9.9 فیصد، سٹاک ہوم میں 7.3 فیصد اور بارسیلونا میں 7.1 فیصد پائی گئی۔
سویڈن اور کسی حد تک برطانیہ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہاں محدود لاک ڈاون کرنے کا مقصد اپنی اجتماعی آبادی میں قوت مدافعت کو بڑھانا تھا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ان علاقوں میں 7 سے 17 فیصد لوگ متاثر ہوئے۔ نیویارک امریکہ میں کورونا کا سب سے بڑا نشانہ بننے والا شہر ہے۔ گورنر آفس کے جاری کردہ ایک سروے کے مطابق ماہ مئی کی ابتداء تک وہاں کی 20 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہوئی۔ اسی طرح کے سروے اب چین میں بھی ہورہے ہیں لیکن انکے نتائج کا ابھی انتظار ہے۔ البتہ ووہان شہر کے ایک ہسپتال کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ کام پر واپس جانے والے دس فیصد لوگ کورونا سے متاثر ہوئے۔ (جاری)