فرمائشی قلابازیاں، دھوتی اوراصولی موقف

صاحبِ طرز فکائیہ کالم نگار عطاء الحق قاسمی اپنے ایک کالم ’’ دھوتی دھوتی ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’سردیوں میں دھوتی کے ذکر سے ہی جسم پر کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے، اس لباس کی وہی خصوصیات ہیں جو سٹیشن کے قریب واقع ہوٹلوں کے منتظمین نے ہوٹل کے باہر لکھ کر لگائی ہوتی ہیں یعنی کھلے ہوا دار کمرے‘‘ ہم نے یہ کالم بار بارپڑھا ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ قاسمی صاحب کا یہ کالم ہمیں’’دونی‘‘ کے پہاڑے کی طرح یاد ہے تو اس میں رتی بھر مبالغہ نہیں ہوگا ۔یقینا ہمارے حافظے سے زیادہ یہ داد قاسمی صاحب کو جاتی ہے کہ جن کے انوکھے اسلوب اور ’’ بیان‘‘نے اس ’’ری وش‘‘ کے ذکر میں وہ دلکشی پیدا کردی ہے جسے پڑھ کر یا سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ؎
سینے میں ایک تیر وہ مارا کہ ہائے ہائے
آپ تصور کیجئے جون جولائی کی تپتی دوپہر میں کسی تنگ وتاریک کمرے کے اندر لوڈشیڈنگ کے عذابِ مسلسل میں آپ سرتا پائوںپسینے میں نہائے ہوئے ہوں۔ ایسے میں کوئی آپ کے کان میں ہولے سے لفظ’’ دھوتی‘‘کہہ دے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ دھوتی کا تصور ہی آپ کو راحت وتسکین کی اُن فضائوں میں لے جائیگا جہاں پہنچ کر بیمار کو بھی بے وجہ قرار آجاتا ہے۔ہاں البتہ اس کیلئے ایک شرط ہے کہ آپ نے اس سے پیشتر زندگی میں کم از کم ایک بار دھوتی ضرور ’’ٹِیسٹ‘‘ کی ہو ۔ گویا دھوتی کا معاملہ بھی ’’کافی‘‘ سے ملتا جلتا ہے۔ مطلب اگر دھوتی کے حوالے سے آپ کا ٹِیسٹ ڈویلپ نہیں ہے تو ممکن ہے شروع میں دھو تی آپ کو وہ سکون ِقلب و راحتِ جاں نہ دے جو دھوتی کا خاصا ہے۔دھوتی کے پانچ ،چھ، سات بار استعمال کے بعد تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ دھوتی کو کسی بھی طرح رد کر سکیں۔ گویا پھر آپ مستقل بنیادوں پر دھوتی کے اسیر یعنی ’’ایڈکٹ‘‘ ہونگے۔ ایسے میں ہمارا مشورہ ہے کہ کسی دن آپ دھوتی پہننے سے پہلے اگر کچھ اضافی اہتمام کر لیںیعنی دھوتی کو پانی کا ایک ہلکا سا ’’ ترونکا‘‘بھی دے دیں تو یہ سونے پہ سہاگہ ہو جائے گا۔ آپ یقین جانئے اسکے بعد قیامت کی گرمی میں بھی دھوتی پہننے سے آپ کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی مگر اس سلسلے میں ہم آپ کو خبردار کیے دیتے ہیں کہ یہ سب ’’ٹشن‘‘سردیوں میں بھول کر بھی نہ کیجئے گا کیونکہ اس صورت میں قوی امکان ہے کہ ٹھنڈ آپکے کلیجے میں جائیگی نہیں، سیدھی آپکے کلیجے کو پڑیگی جس کا اختتام نمونیہ پر بھی ہوسکتا ہے۔بات شروع ہوئی تھی عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالمـــــ ’’دھوتی دھوتی ہے‘‘ سے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی بار ہم نے یہ کالم شدید گرمیوں اور حبس کے موسم میں پڑھا تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کی طرح ہم بھی کچی عمر میں تھے۔ ہمارے چہرے پر خال خال گرمی دانے نکلنے شروع ہوگئے تھے،جن میں دیگر کچھ عوامل کے ساتھ قاسمی صاحب کے کالم ’’دھوتی دھوتی ہے‘‘ اور ’’بے شرم‘‘ ایسی طرز کی دیگر تحریریں پڑھنے سے بتدریج تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔ایک عجیب سا احساس تھا جو کسی گدگدی کی صورت ہمارے پورے جسم میں دوڑ گیا۔جس کا تاثر آج بھی پہلی محبت کے ا حساس کی طرح ہمارے ذہن و دل میں نہ صرف تروتازہ ہے بلکہ پہلے سے بھی شدید ہوگیا ہے۔آج ہم گرمیوں کے ساتھ ساتھ سردیوں میں بھی پورے اعتماد کے ساتھ نا صرف دھوتی پہن سکتے ہیں بلکہ اسے انجوائے بھی کر تے ہیں۔بالکل اُسی طرح جیسے شدید ٹھنڈ میں کچھ لوگ آئس کریم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔دھوتی غالباََدنیا کا سستا ترین لباس ہونے کے ساتھ ساتھ آسان ترین لباس بھی ہے۔سستایوں کہ آپ کسی بھی ان سلی چادر کومحض اپنے ’’ارادے اور نیت‘‘ سے ہی فوری طور پر دھوتی میں تبدیل کر سکتے ہیںاورآسان یوں کہ اسے پہننے اور اتارنے ہر دو صورت میں آپ کوکسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔بالخصوص ہمارے موٹے بھائی تو محض سانس اندر کھینچ کر ہی اپنی اور ’’دھابا‘‘مار کر دوسرے کی دھوتی اتار سکتے ہیں۔آخر میںہم آپ کودھوتی کے حوالے سے ایک ’’ ویک پوائنٹ‘‘بھی بتانا چاہتے ہیں جو کچھ لوگوں کے نزدیک دھوتی کا’’پَلس پوائنٹ‘‘ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دھوتی غالباََ دنیا کا واحد لباس ہے جسے پہن کر بڑے سے بڑا ’’جی دار‘‘بھی عوام الناس کے سامنے ’’ کُھل کھلا ‘‘کے قلابازی نہیں لگا سکتا البتہ سیاستدانوں ،صحافیوں اور اینکرز کا معاملہ مختلف ہے۔

ای پیپر دی نیشن