’’انسان کا ظاہر اتنا بے حیثیت ہے کہ ایک مچھر بھی اسے چکر میں لاسکتاہے اور دم بھر کیلئے بھی چین نصیب نہیں ہونے دیتا، لیکن اسکے باطن میں خدا نے ایسی صلاحیتیں رکھی ہیں کہ وہ ساتوں آسمانوں پر چھا سکتا ہے‘‘۔ اتنے خوبصورت انتساب کے ساتھ مجھے ارشاد حسن خان سابق چیف جسٹس پاکستان کی کتاب ارشاد نامہ موصول ہوئی۔
ارشاد نامہ ایک سوانح عمری ہے معاون سے چیف جسٹس بننے تک کی مکمل داستان ہے۔برطانیہ کے جسٹس لارڈ ڈیننگ نے خاندانی حوالہ سے سوانح عمری Family Storyکے نام سے تحریر کی تو اس کے آخر میں لکھا کہ ’’میں نے اپنی خاندانی کہانی ختم کردی، یہ ایک سچی کہانی ہے لیکن میں نے سب کچھ نہیں لکھا اور آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی کہانی پوری نہ لکھی جائے تو وہ پورا سچ نہیں ہوتا اور ابہام رہ جاتاہے، حافظہ بھی اپنی خامیاں چھوڑ جاتاہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک گواہ اپنی سوچ کے زاویے کے مطابق جیسے وہ چاہتاہے بیان کرتاہے نہ کہ جیسے کہ وہ ہوا ہو‘‘۔
پرونسٹن چرچل وزیراعظم برطانیہ نے ایک صحافی کے سوال تاریخ آپ کو کیسے دیکھے گی ؟ کے جواب میں کہا’’ چونکہ تاریخ میں خود لکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ تاریخ مجھے اچھے لفظوںمیں پیش کریگی‘‘۔تقسیم ہند سے پہلے ہی یتیمی کا بادل سر پہ لیے ارشاد حسن خان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ وہ قدم بڑھاتے چلے جانے پہ اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ کہتے ہیں آپ قدم بڑھائیں منزل آپ کی طرف خود بخود بڑھنا شروع ہوجائے گی۔ واقعی زندگی میں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا کھانے کوایک روٹی ملتی یا بھوکے سوتے مگر اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھنے والے ارشاد حسن خان مرحلہ وار لگن اور جستجو کے ساتھ کامیاب ہوتے رہے۔ کون کہہ سکتاہے کہ والدین کے سہارے کے بنا وہ آگ میں جھلسے نہ ہونگے اور پانی میں ڈوبے نہ ہونگے، زندگی بنا کَس بَل نکالے کہاں آسمان چمکتا ہوا ستارا بننے دیتی ہے، مگر ارشاد حسن خان نے ابھرتے ڈوبتے ،روتے ہنستے زندگی کے سنگ یاری کرلی اور نبھاتے نبھاتے آخر اس مقام پہ پہنچ گئے کہ جہاں ڈوبنے کا خوف ختم ہوگیا اور آنسوئوں کا بہانا عجز بن گیا۔ ارشاد نامہ ان کی دلچسپ سوانح عمری ہے جو انہوں نے بے ساختگی میں لکھی ہے جس کی وجہ سے ملاوٹ، تصنع اوردروغ گوئی کا عنصر، کہیں کارفرما نظرنہیں آتا۔ اپنی ذہانت سے حکمت عملی کو واضح کرتے ہوئے واقعات اور حالات سے مثبت اور مفید روشن راستے سمجھاتے چلے گئے کہ قاری کوخود پہ بھی رشک آنے لگاکیونکہ اسکے اپنے بند راستے کھلتے چلے گئے۔
ہم نے زندگی میں بہت افسانوی اور ڈرامائی کردار دیکھے مگر ارشاد حسن خان کی یہ تحریر پڑھ کر واضح ہواکہ وہ انتہائی نرم مزاج، شگفتگی کے حامل، مضبوط شخصیت، ظلم سے ٹکرلینے والے، حقائق کو واضح کرنے اور سچ وانصاف کا بول بالا کرنے والے انسان ہیں ۔ روشنی چراغ کی ہو یا موم بتی کی یا پھر کھمبوں کے بلب کی اس روشنی سے آپ اپنی ہی نہیں بلکہ گردونواح کے لوگوں کی زندگیاں بھی منور کردیں تو اشرف المخلوقات کا دعویٰ آپ کی زبان پہ سجتاہے۔ ارشاد حسن خان نے اس دعویٰ کو ثبوت کے ساتھ پیش کیا۔ زندگی کا مقدمہ لڑتے لڑتے ہم دارفانی سے کوچ کرجاتے ہیں کوئی فیصلہ نہیں ہوپاتا نہ ہمیں پھانسی پہ چڑھایاجاتاہے نہ سلاخوں سے آزاد کیاجاتاہے نہ عمرقید کی مشقت ہمیں خواب سجانے کے قابل چھوڑتی ہے۔ ارشاد حسن خان نے اپنی زندگی کے ہرپل ہر فیصلے ہرمشقت اورہرجنگ کو کمال ہنرمندی سے قرطاس پہ بکھیراہے کہ ہم اپنی پہچان بنانے کیلئے اس میں سے بہت سے نقاط اپنی زندگی کے باب میں لکھ سکتے ہیں جیسے کہ ان کی کتاب کا اقتباس دیکھئے کہ اس سے کیا استفادہ کیاجاسکتاہے۔
’’ایک ایسے غریب بچے کیلئے جو کم عمری سے محنت مزدوری کرتا، بجلی کے کھمبے کی روشنی میں پڑھتا اور سکول کی فیس سے لے کر جیب خرچ تک کیلئے وظیفے پر انحصار کرتا تھا جس کے گھریلو حالات اتنے ناسازگار تھے کہ ایک مخیرخاتون نے اسے لے پالک بنانے کی پیشکش کی تو اسے کوئی عذر نہ تھا جس کے پاس گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کیلئے اپنی خود اعتمادی کے سوا نہ کوئی سفارش تھی اور نہ فوری طور پر ادا کرنے کیلئے فیس کی رقم، صرف اپنے زور بازو سے وہ غریب اردو میڈیم کاپڑھا ہوا بچہ انگریزی میڈیم گورنمنٹ کالج کا طالب علم بھی ہوا، اس کی یونین کا سیکرٹری بھی منتخب ہوا اور کالج کے پرنسپل سے لے کر ہائی کورٹ کے نامور ترین چیف جسٹس جناب ایم آر کیانی سے ہم کلام بھی ہوا اور ان کی صحبت سے مستفید بھی۔یہ سلسلہ یونیورسٹی لاء کالج سے ہوتاہوا وکالت تک پہنچا تو اس نوجوان وکیل کی صبح کا آغاز اپنے دفتر میں جھاڑو لگانے سے ہوتا تھا‘‘۔یہ ہیں ارشاد حسن خان۔