اس وقت کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس سے نسل انسانی کو شدید خطرات لاحق ہیں کرہ ارض پر اب تک لاکھوں لوگ اس موذی وائرس کا شکار ہوکر اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں تاہم سائنسدانوں نے اس وائرس سے بچاؤ کی ویکسئین بھی بنا لی ہے جو انسانی جان کے تحفظ کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک میں استعمال کی جارہی ہے لیکن اس کے ساتھ مختلف افواہوں نے لوگوں کو مختلف اوہام میں ڈال دیا ہے لوگ اسے لگوانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں یا پھر سرے سے اسے لگوانے سے انکاری ہیں اس سلسلے میں میرے کالج اور ہاسٹل فیلو ڈاکٹر رئیس عرفان جو آج کل۔برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہاں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان سے گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ " ویکسین کے باوجود ماسک لگانے اور سماجی فاصلہ رکھنے کیوجہ سے ویکسین کو غیرضروری قرار دینے کی ایک ویڈیو ایک دوست نے سوشل میڈیا پر شئیر کی ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہورہی ہے -
لہذا میڈیکل ریسرچ میں اپنے پندرہ سالہ تجربے اور تحقیقی باریکیوں کو سمجھنے کی وجہ سے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ آپکو مخلصانہ اور مفید مشورہ دیا جائے۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ ویکسین کا مقصد انسان کو کرونا وائرس سے انفیکشن ہونے کی صورت میں شدید بیماری اور موت کے خطرے کو کم کرنا ہے، جس کیلئے یہ انتہائی موثر اور محفوظ ہے۔آپ ویکسین کے بعد ماسک اس لیے لگاتے ہیں اور سماجی فاصلہ رکھتے ہیں کیونکہ آپ تو ویکسین کی وجہ سے محفوظ ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی آپ موذی وائرس کو ان لوگوں کو منتقل کرسکتے ہیں جن کو ویکسین نہیں لگی یا انکی قوت مدافعت کمزور ہے جیسے بوڑھے اور بیمار لوگ اور ان کیلئیے وہ انفیکشن جان لیواثابت ہوسکتا ہے۔جب آبادی کے بیشتر حصے کو ویکسین لگ جائے گی تو ماسک اور سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی جیسا کہ چین اور نیوزی لینڈ نے کامیابی سے کر کے دکھا دیا ہے اور امریکہ اور انگلینڈ میں ویکسین کی بڑھتی ہوئی شرح کے مطابق یہ پابندیاں آہستہ آہستہ اٹھائی جارہی ہیں اس کے برعکس انڈیا، برازیل اور کئی دوسرے ممالک میں ماسک اور سماجی فاصلے کی ضرورت کو نہیں سمجھا گیا اور ویکسین کی عدم دستیابی یا ویکسین کے خلاف احمقانہ پروپیگنڈہ کی وجہ سے عوام کی ہچکچاہٹ کے بھیانک نتائج انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں سامنے آرہے ہیں ، گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے ہیں وہاں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں جگہ نہیں مل رہی لوگ اپنے پیاروں کو لے کر ہسپتالوں کے باہر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہیں اور کوئی بیڈ، ڈاکٹر یا دوائی میسر نہیں ہے لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر سڑکوں پر مر رہے ہیں ایک اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ کرونا وائرس سے تقریباً ستانوے فیصد لوگ صحتیاب ہوجاتے ہیں اس لیے یہ بظاہر کوئی خوفناک مرض نہیں ہے لیکن یہ انتہائی متعدی مرض تیزی سے پھیلتا ہے اس لیے اگر ایک لاکھ لوگ ایک ہفتے میں اس سے متاثر ہوں اور ان میں تین ہزار شدید بیمار ہوجائیں تو انکا علاج معالجہ ہوسکتا ہے اگر دس لاکھ لوگ ایک ہفتے میں کرونا سے متاثر ہوجائیں اور ان میں سے تیس ہزار لوگ شدید بیمار ہوں تو انکے لئیے علاج معالجے کی سہولتیں ناکافی ہونگی اسی طرح اگر بیس لاکھ یا پچاس لاکھ لوگ متاثر ہوجائیں تو اس میں سے تین فیصد لوگوں کیلئے ہسپتال، دوئیواں اور طبی عملے کا میسر ہونا ناممکن ہے اور لوگ اسی طرح سڑکوں پر مرنا شروع ہوسکتے ہیں جیسے آجکل انڈیا میں ہورہاہے۔
سوشل میڈیا پر کم علم اور کج فہم لوگوں نے بہت سی خرافات پھیلا رکھی ہیں۔ ان سے دھوکہ کھا کر اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کو داؤ پر نہ لگائیں۔صرف قابل اعتماد ذرائع معلومات محکمہ صحت کی طرف سے جاری کردہ ہدایت نامے پر عمل کریں" سوشل میڈیا پر گمراہ کن مواد پر توجہ نہ دیں جس میں انسانی جسم میں کوئی خفیہ چپ لگائی جارہی ہے، ویکسین لگوانے والا دوسال کے اندر مرجائے گا یا اس ویکسین کے ذریعے آبادی پر کنٹرول کرنے کا کام لیا جائے گا جیسی فضول افواہیں پھیلا رہے ہیں اس کا منفی اثر یہ ہوا ہے کہ اطلاعات کے مطابق بعض اضلاع میں ان افواہوں کے بعد ویکسین لگوانے کی شرح میں پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جو پریشان کن حد تک ہے اس لئے حکومت کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ویکسین کے خلاف منفی مواد پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور عوام کا اعتماد بحال کیا جائے عوام کو چاہیے کہ وہ ہر ممکن احتیاط کریں اور اگر موقع ملے تو ویکسین ضرور لگوا کر اپنی اوراپنے اہل خانہ کی جان کی حفاظت کی کوشش کریں ۔