ملتان(توقیر بخاری سے)شہر میں سرکاری و نجی ہسپتالوں کا طبی فضلہ"ری سائیکل"کرکے پلاسٹک و شیشے سے بنی اشیائ،سرنجز،گلوکوز، خون کی بوتلیں بنانے کا گھناؤنا کاروبار ختم کرنے کی بجائے بڑھتا جارہا ہے جو مختلف قسم کی خطرناک بیماریاںپھیلا رہا ہے۔ ۔سابق دور حکومت میں"ایک اعلی حکومتی شخصیت"نے فیکٹری مالکان کو مالی فوائد پہنچانے کے لئے ہسپتالوں کو طبی فضلہ نیلامی کے ذریعے فروخت کرنے کی اجازت دی۔ اسی آڑ میں ایسا طبی فضلہ بھی فروخت کیا جانے لگا۔جسکے دوبارہ استعمال سے لوگوں کے ایڈز،ہیپاٹائٹس سمیت دیگر جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات بڑھ گئے۔ملتان شہر میں طبی فضلہ کی تلفی کے لئے صرف نشتر ہسپتال میں انسنی ریٹر موجود ہے۔جبکہ کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ،چلڈرن کمپلیکس،نشتر انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹسٹری،کڈنی سنٹر،شہباز شریف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال،فاطمہ جناح خواتین ہسپتال،سول ہسپتال،ٹاون ہسپتالوں ممتاز آباد،ایس بلاک نیو ملتان،رحیم آباد و تمام بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں انسنی ریٹر نہیں ہے۔شفا بانٹنے والے ہسپتال ہی بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔سرنجز،گلوکوز،خون کی خالی بوتلیں،سیرپ کی خالی شیشیاں فیکٹریوں کو دوبارہ فروخت کردی جاتی ہیں۔جو ری سائیکل کرکے ان سے دوبارہ سرنجز،گلوکوز،خون کی خالی بوتلیں،پلاسٹک و شیشے کے برتن،پلاسٹک پائپ،پلاسٹک کے کھلونے و دیگر اشیاء تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں۔اسی طرح سیرپ کی خالی ششیوں کو بھی دھلائی کے بعد دوبارہ فارما سیکٹر کو فروخت کردیا جاتا ہے۔جبکہ شیشے کے برتن،گلاس،چوڑیاں و دیگر اشیاء تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بھی سیرپ کی خالی بوتلیں فروخت کردی جاتی ہیں۔نشتر ہسپتال،کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ،چلڈرن کمپلیکس،نشتر انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹسٹری،کڈنی سنٹر،شہباز شریف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال،فاطمہ جناح خواتین ہسپتال،سول ہسپتال،ٹاون ہسپتالوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طبی فضلہ مروجہ قواعد کے مطابق بلکل ٹھیک اور محفوظ طریقے سے تلف کیا جاتا ہے۔تاکہ اس سے بیماریاں نہ پھیلیں اور انکا دوبارہ استعمال بھی ممکن نہ ہو#