قارئین! گزشتہ کالم میں رنگ روڈ سکینڈل پر بات مکمل نہ ہو سکی، لہٰذا چاچا کبوتر سے جو گفتگو ہوئی وہ ادھوری رہ گئی تھی۔ چاچا کبوتر سے مزید دو ٹیکنیکل سوالات و جوابات پیش خدمت ہیں۔
سوال نمبر 4۔ کیا راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی حدود سے باہر اسکی کارروائی خلاف ضابطہ نہیں تھی؟
چاچا کبوتر: لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کی کارروائی قانون کے مطابق تھی۔ درحقیقت لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کو رنگ روڈ پنجاب کے تمام منصوبے کیلئے تعینات کیا گیا تھا۔ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر اس ایکٹ کے تحت اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے، نہ کہ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسر کے طور پر۔ اسکے پاس راولپنڈی اور اٹک میں کارروائی کے اختیارات موجود تھے اور وہ رنگ روڈ منصوبے کا لینڈ ایکوزیشن کلکٹر تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسٹر وسیم تابش کلرسیداں کا تحصیل دار تھا اور اسے لینڈ ایکوزیشن کلکٹر، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اضافی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، نیز راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے حکومت پنجاب سے مسٹر تابش کو رنگ روڈ منصوبے کیلئے لینڈ ایکوزیشن کلکٹر تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کیلئے 29-10-2019 کو خط لکھا گیا تھا جس کی منظوری حکومت نے نوٹیفکیشن نمبر SO (Admin-II) 2-14/2015، بتاریخ 17 دسمبر 2019 کو دی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ مسٹر تابش کو ایک مجاز اتھارٹی نے پورے رنگ روڈ منصوبے کیلئے لینڈ ایکوزیشن کلکٹر مقرر کیا تھا۔ چونکہ رنگ روڈ منصوبے کی حدود اسلام آباد کی حدود میں معطل ہو جاتی ہیں، اس لیے کمشنر راولپنڈی نے چیف کمشنر اسلام آباد کو خط No.PS/60 بتاریخ 12-03-2020 لکھ کر مطلع کیا کہ مسٹر وسیم تابش کو راولپنڈی، پنجاب میں رنگ روڈ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر مقرر کیا گیا ہے اور چیف کمشنر اسلام آباد سے درخواست کی کہ مسٹر وسیم تابش کو رنگ روڈ اسلام آبادمیں لینڈ ایکوزیشن کلکٹر مقرر کر لیا جائے۔ چیف کمشنر اسلام آبادنے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت اسکی منظوری دیدی۔ اس کا نوٹیفکیشن 5 (12)-Law/2014، بتاریخ اپریل 2019 تھا۔ سوال نمبر 5۔ کیا وہ ادائیگیاں واپس لی جا سکتی ہیں جو غیر قانونی طور پر مقرر کردہ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر افسران کو مقرر کرتے ہوئے ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کیں؟ چاچا کبوتر : S&GAD کے جاری کردی نوٹیفکیشن اور لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے سیکشن 3 کے تحت کمشنر راولپنڈی کو تفویض کردہ اختیارات کیمطابق لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کی تقرری قانونی تھی۔ مزید یہ کہ لینڈ ایکوزیشن کا تمام عمل متعلقہ افسران نے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے سیکشن 4 سے لیکر سیکشن 11 کے تحت انائونسمنٹ آف ایوارڈ تک، تمام کارروائی قانون کے مطابق کی تھی۔ اس کارروائی کے دوران ضلع اٹک کے DPAC's ڈپٹی کمشنر اٹک کی صدارت میں بلائے گئے اور حتیٰ کہ SMBR پنجاب نے منصوبے کی لاگت کی پنجاب لینڈ ریونیو رولز 1983 ء کے ضابطے 12(iii) کے تحت ممبر کنسولیڈیشن کی چیئرمین شپ میں 21-10-2020 کو ہونیوالے اجلاس میں منظوری دی۔ یہ ادائیگی زمین کے اصل مالکان کو کر دی گئی۔ سیکشن 4، 5 اور 6 کے تحت تمام نوٹیفکیشن اور سیکشن 11 کے تحت تمام ایوارڈ برقرار ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر اور مقرر کردہ تمام افسران نے اس منصوبے پر خوش اسلوبی سے پوری ایمان داری، محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا، اس لیے ان سے کسی رقم کی بازیابی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔یہ وہ چند سوالات تھے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی فرد واحد اتنے بڑے منصوبے میں اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ پچھلے کالم پر ایف آئی اے کے بہت عزیز دوست نے مسیج کیا کہ اس منصوبے میں الائینمنٹ کی تبدیلی جس نے بھی کی ، اصل قصور وار وہ ہے اور عمران خان نے صحیح وقت پر کرپشن پکڑ کر ایک مثال قائم کی۔میں نے اپنے عزیز دوست کو جواب دیا کہ بالکل عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا مگر بنا تحقیقات کے اپنے مشیر، سیکرٹری اور اہم ایجنسی کی باتوں پر یقین کر لینا حاکم وقت کو زیب نہیں دیتا۔
یقیناً! راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ تاخیر کا شکار ہونا پاکستانی عوام کیلئے نہایت افسوس ناک ہے۔وزیر، مشیر یا بیورو کریسی کے کسی بھی فرد نے اس میں کرپشن کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے۔ صاف اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں مگر تحقیقات سے پہلے کسی بھی وزیر، مشیر یا افسر کو مجرم قرار دے دینا ریاست مدینہ کے اصولوں کے منافی ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو چاہیے اس سکینڈل کی تحقیقات میں محض اینٹی کرپشن یا نیب پر تکیہ نہ کیا جائے بلکہ تمام متعلقہ اداروں کو ان تحقیقات میں شامل کیا جائے تاکہ جلد از جلد اصل ملزمان کو پکڑا جا سکے اور یہ اہم منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔