نجم سیٹھی نے احسان مانی ‘وسیم خان کو عہدہ سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا 

لاہور(حافظ محمد عمران/سپورٹس رپورٹر) پی سی بی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کچھ وقت نکالیں اور دیکھیں کہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، لوگ وزیراعظم کی سیاسی ناکامی بھول جائیں گے لیکن کرکٹ کے ساتھ ہونے والا ظلم نہیں بھولیں گے، میڈیا یہ ناکامی یاد دلاتا رہے گا۔ بورڈ انتظامیہ کے غلط فیصلوں سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ تباہ ہوئی۔اب ان کی حماقتوں کی وجہ سے پاکستان سپر لیگ کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ کیا یہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں کرکٹ کھیل کر نہیں آئے، کیا یہ نہیں جانتے تھے کہ بائیو سکیور ببل کیا ہوتا ہے، ویجی لینس کیلئے کیوں رینجرز یا آئی ایس آئی کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں، ہمارے دور میں ایسے کاموں کیلئے وہاں سے بہترین لوگ آتے تھے۔ بھاری تنخواہوں پر امپورٹڈ افسران کو تعینات کیا گیا، سفارشی اور نااہل افراد کی تعیناتیوں کی وجہ سے ملک کے مقبول ترین کھیل کا مستقبل خطرے میں ہے۔ بورڈ میں کوئی منتخب نمائندہ نہیں ، احسان مانی نے پسندیدہ افراد کو ذمہ داریاں دے رکھی ہیں، وہ خود کسی کاغذ پر دستخط نہیں کرتے لیکن ان کی مرضی کے بغیر کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ تیسرا سال ہے ڈومیسٹک کرکٹ کو منظم نہیں کر سکے، ایسوسی ایشنز پر ایڈ ہاک ہے اب نچلی سطح کی کرکٹ سرکاری افسران کی نگرانی میں کروانے جا رہے ہیں، کیا صوبائی سپورٹس بورڈز اور پاکستان سپورٹس بورڈ بہت اچھا کام کر رہا ہے، جب ڈی سی آئے گا تو کیا وہ حکم کی تعمیل کریگا، ہم نے بورڈ کا پہلا جمہوری آئین بنایا، اس آئین کو سپریم کورٹ نے منظور کیا اور بہت اچھے ریمارکس بھی دیے موجودہ انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے منظور شدہ آئین کو باہر پھینک دیا۔ سارا نظام ایڈہاک پر چل رہا ہے۔ مسلسل دوسرا سال ہے پی ایس ایل شیڈول کے مطابق نہیں ہو سکی، ملک کا مقبول ترین پراڈکٹ ٹکروں میں تقسیم ہوا ہے۔ ڈاکٹر سہیل سلیم کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ۔ چار سال تک پی ایس ایل کا فنانشل ماڈل ٹھیک تھا کیا ساری خرابیاں گذشتہ دو برس میں سامنے آئی ہیں۔ فنانشل ماڈل ٹھیک ہے اس کیساتھ جڑے افراد کو جو کام کرنا چاہیے تھا انہوں نے نہیں کیا۔ کیا فرنچائز مالکان نے وکلاء سے مشورہ نہیں کیا تھا، ہم نے فنانشل ماڈل کو سمجھانے کیلئے سیشنز کروائے۔ فرنچائز مالکان سے پوچھیں رجسٹرڈ پرستاروں کی تعداد کیا ہے، کسی پاس کوئی ڈیٹا ہے تو لوگوں کے سامنے رکھیں۔ یہ سب سٹارز کے پیچھے رہتے ہیں، ساری توجہ تصاویر  اور انٹرویوز پر ہوتی ہے۔ جو کام کرنا چاہیے وہ کرتے نہیں پھر کہتے ہیں فنانشل ماڈل ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے دن رات محنت سے پاکستان سپر لیگ کو کامیاب بنایا، چھوٹے سے چھوٹے کام کو احتیاط کیساتھ کیا اور ہر کام کی مکمل نگرانی کی، دو ہزار سولہ میں بھی پی سی بی کے افسران نے پاکستان سپر لیگ کی مخالف تھی، ہم نے پچیس تیس کروڑ والا کام دو کروڑ میں کیا، جو کام غیر ملکیوں سے کروانا چاہیے تھا وہ بھی اپنے لوگوں سے کروایا۔ پی ایس ایل کے ذریعے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آئی، گذشتہ برس پی ایس ایل کو ملتوی کرنا بھی غلط تھا، اس مرتبہ تو اس سے بھی بڑی حماقت کی گئی، کیا بائیو سکیور ببل اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ لیگ ہی ملتوی کر دی جاتی۔ دو تین روز تک مقابلے روک کر نیا بائیو سکیور ببل بنایا جا سکتا تھا، کسی سکیورٹی ایجنسی سے مدد لی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ پاکستان کرکٹ کی خدمت کے جذبے سے بورڈ میں آیا تھا دوبارہ موقع ملا تو ضرور کام کروں گا۔ میرے دور میں بھی ماجد خان اور عمران خان کے مشورے سے محکمہ جاتی کرکٹ کے خاتمے کی بات ہوئی تھی ہم نے کام شروع کیا لیکن عوامی ردعمل پر روک دیا گیا۔ درحقیقت کسی بہتر متبادل کے بغیر یک لخت کسی بھی چلتی چیز کو بند کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ ان لوگوں نے محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کو بند کر دیا ہے اور اس کا بہتر متبادل دینے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ کرکٹ میں ہر سطح پر تباہی ہوئی ہے۔ ہمارے بورڈ میں محکموں کے نمائندے تھے اور ریجنز کے منتخب نمائندے بھی بورڈ کا حصہ تھے اس وقت سارا بورڈ صرف انگوٹھے لگانے والوں کا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...