سیاسی لنڈا بازار اور صحافتی ذمہ داریاں

جس طرح لنڈا بازاروں میں متروک و ناکارہ ملبوسات کی بولیاں لگا کر زبانی شعبدہ بازیوں سے گاہکوں کو متوجہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے سیاستدان جو کردار و گفتار کے ترازو میں وزن نہیں رکھتے، الیکشن کے نزدیک آتے ہی عوام کو بیوقوف بنانے کی سر توڑ سعی کرتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں اعصاب شکن سیاسی چپقلش اور چند مفاد پرست پارٹی کارکنان کی سیاست دانوں کی چاپلوسی کی خاطر دھینگا مشتی پر مجھے راحت اندوری کا شعر یاد آ گیا: 
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
 اب صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کی آمد آمد کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کئی کئی برس عوام کو شکل نہ دکھانے والے اور بلند و بانگ دعوے کرنے والے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے لیے انتخابی حلقوں میں جا کر ووٹ مانگنا کسی کٹھن امتحان سے کم نہیں کیونکہ عوام پہلے سے زیادہ باشعور ہو گئے ہیں۔
قارئین مشاہدے میں ہے کہ آجکل انٹرنیشنل پالیٹکس اور رائے عامہ میں دلچسپی کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے دور میں آپ لوگوں سے کچھ مخفی نہیں رکھ سکتے۔ رائے عامہ کے سروے سب عیاں کر دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جو حکومت جمہوری انداز سے ترتیب پاتی ہے بین الاقوامی سطح پر اس کو سراہا جاتا ہے۔عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ رائے عامہ کی تشکیل میں دو مستند ذرائع بہت اہم ہیں یعنی ٹیلی ویژن اور اخبارات و رسائل۔ جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ عوام الناس کو روزمرہ کے حالات سے اطلاع ملتی ہے۔ خبروں کے علاوہ اس میں سیاست دانوں کے بیانات، ماہرین کے بے لاگ تبصرے اور بیرونی دنیا کے حالات و واقعات درج ہوتے ہیں۔ لیکن اخبارات سے زیادہ عوام ٹیلی ویژن سے رہنمائی حاصل کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جہاں لائیو پروگرامز میں گرماگرم سیاسی بحث کے ساتھ عوام اپنے سیاست دانوں کا لہجہ و باڈی لینگوئج، فیشل ایکسپریشنز سے بہت کچھ اخذ کر لیتے ہیں۔ سنی سنائی افواہوں کی بجائے بذاتِ خود رونما ہونے والے واقعات نیز جلسے جلوسوں میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ کتنے افراد تھے اور کتنی کرسیاں! قارئین اگر یہی ذرائع منفی رویے اختیار کر لیں یا جانبداری کا مظاہرہ کریں یا سیاست دانوں کے مثبت ترقیاتی کاموں کو سراہنے کی بجائے ان کی ذرا سی کمی کوتاہی پر ان کی تضحیک کا سامان پیدا کریں یا غیر مصدقہ و غیر مستند خبروں کی تشہیر کریں گے تو یقینا عوام میں شدید اضطراب پیدا ہو جائے گا۔ اسی طرح اخبارات محض اپنی سرکولیشن بڑھانے اور ٹیلی ویژن چینلز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلیں گے تو لازمی طور پر لوگوں میں عدم اعتماد کی فضا قائم ہوگی۔ 
بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو سیاسی جماعت، فرقہ وار لسانی گروہ کی خاطر قومی نقطہء نظر کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ ان کی غلط ترجیحات ملکی سالمیت اور اس کے بقاء کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ لہٰذا اس نازک مسئلے کے حل کے لیے صحافت اور رپورٹنگ غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے کیونکہ عوام ان ذرائع و اداروں پر اعتماد کرتے ہیں۔ بسا اوقات خبروں کو من و عن قبول کرنے میں ذرا تامل نہیں کیا جاتا جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ دور حاضر میں سیاست میں فتنہ وجھوٹ کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کو بطور پلیٹ فارم استعمال کیا جا رہا ہے۔کہاں سے خبر آئی، کس نے دروغ گوئی سے لبریز مواد اپلوڈ کیا کچھ علم نہیں۔ سیاست دانوں کی تصاویر کو ایڈیٹنگ کے ذریعے مضحکہ خیز بنانا اور اس پر فیک جملوں کی کیپشن دینے کا بھونڈا رواج بام عروج پر ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قدر ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ ! جعلی اکاؤنٹس بنا کر مخالف سیاستدانوں کے متعلق ایسے ایسے ہوش ربا الزامات شیئر کیے جاتے ہیں اور اس پر پارٹی کارکنان کے کومنٹس کہ کانوں کو ہاتھ لگانے کو جی کرتا ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔نیز اس پر مزید ستم ظریفی کہ طالع آزماؤں اور چالاک سیاستدانوں نے خاص مقصد کے تحت عوام کو منتشر و منقسم کر دیا ہے تاکہ وہ قومی اتحاد و یکجہتی کے لیے ایک پیج پر اکھٹے نہ ہو سکیں۔ پاکستانی سیاست پر اس وقت کالے بادل چھائے ہوئے ہیں ان گھٹا ٹوپ اندھیروں سیاستدان اپنے مفادات ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرے نزدیک جب تک شفاف الیکشن نہیں ہوجاتے یہ دور ظلمت کا دور ہے لہٰذا پاکستان کے عام شہریوں، سیاست دانوں، صحافیوں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو چاہیے کہ تمام تر وفاداریاں اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی سلامتی اور اس کے وقار کے لیے رکھیں۔ ہو سکتا ہے کچھ چینلز، اخبارات، صحافی جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے حاکم کو مسلط کروانے میں کامیاب تو ہو جائیں لیکن قومی یکجہتی کے اعلیٰ مقاصد کو ضرور تباہ کر دیں گے۔ عوام سے التماس سے کہ اہل وزیراعظم کے انتخاب کے لیے یکجا ہو جائیں کیونکہ غلط ترجیحات مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ جس سے نفرتیں، تعصبات پھیلتے ہیں۔ قومی سوچ دھندلا جاتی ہے یوں تو تو میں میں کی سیاست کا لنڈا بازار کھل جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن