یوں تو فی الوقت حکومت بلوچستان اپنے مخالفین کے ایک کڑے وار سے صاف بچ نکلی ہے مگر سیاسی حالات میں جو تلاطم پیدا ہوا ہے۔ اس کی لہریں ابھی تک سیاسی تالاب کو سکون لینے نہیں دے رہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کے خلاف محاذ کھولنے والے بھی کوئی اور نہیں خود حکومتی پارٹی ’’باپ‘‘ کے ہی عہدیدار یعنی ارکان اسمبلی ہیں۔جام کمال کو یہ کمال حاصل تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں حکومتی معاملات کنٹرول میں رکھے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر سازش یا کارروائی کا نہایت خوبی سے توڑ نکالا۔ انہیں مرکز میں تحریک انصاف کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ بلوچستان میں بھی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں شیرو شکر اور ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں جو اپوزیشن ملی وہ باہمی اختلافات کی وجہ سے متحد نہ تھی یوں انہیں آرام سے حکومت کرنے کا موقع ملا۔
مگر پھر اچانک عبدالقدوس بزنجو جیسے نوجوان سیاستدان نے جام کمال کے مضبوط حکومتی قلعہ میں یوں نقب لگائی کہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ انہیں موثر اور مطلوبہ ارکان اسمبلی کی حمایت میسر تھی جس کے نتیجے میں جس طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوئے اسی طرح جام کمال بھی وزارت اعلیٰ سے محروم ہوئے۔ اب ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ کرسی سے اترنے کے بعد کوئی بھی نچلا نہیں بیٹھتا۔ سو اب جام کمال بھی
وہی جام گردش میں لاساقیا
شراب کہن پھر پلا ساقیا
کے نعرے کے ساتھ چند ماہ حکومت سے محرومی برداشت نہ کر سکے اور قدوس بزنجو کی حکومت پر حملہ آور ہوئے اندرون خانہ ایک دو وزیر بھی ان سے آن ملے مگر پھر بھی مطلوبہ نمبر پورے نہ ہونے کی وجہ سے وہ حکومتی قلعہ میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے۔ یوں موجودہ حکومت بچ گئی۔
بلوچستان کی سیاست بھی عجیب ہے ساری دنیا میں اس وقت
زمین میر و سلطان سے بیزار ہے
پرانی سیاست گری خوار ہے
کے انقلابی نعرے کو حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ بلوچستان کی سیاست ابھی تک میروں‘ نوابوں‘ سرداروں اور خانوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ بس ایک تبدیلی جو1977ء کے بعد آئی وہ یہ تھی کہ یہاں بھی مذہبی جماعتوں کو سیاست کی شکارگاہ میں داخل ہونے کا موقع دیا گیا۔ یوں قوم پرستی اور لسانیات کے بعد یہ مذہبی سیاست تیسرا فیکٹر بن گئی مگر افسوس اس کے باوجود ’’سلطانی جمہور‘‘کا زمانہ نہیں آ سکا۔ غریبوں‘ مظلوموں کی دادرسی نہ ہو سکی۔ سیاست آج بھی انہی مراعات یافتہ‘ طبقوں کی باندی بنی ہوئی ہے۔ خواہ قوم پرست پشتوں ہوں یا بلوچ یا پھر علماء سب نچلے نہیں اعلیٰ طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ان کا رہن سہن دیکھ لیں۔گاڑیاں دیکھ لیں ’’ تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘ سب عالیٰ نسب ہیں۔ اگر کوئی رائندہ درگاہ ہے تو وہ غریب مظلوم بلوچستان کے شہری ہیں۔ وسیع و عریض صوبہ جس کی دور دور پھیلی آبادی بھی کم ہے۔ وہ برسوں سے اربوں کھربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز اور دیگر مراعاتی پیکیج حاصل کرنے کے باوجود ابھی تک پینے کے صاف پانی‘ بجلی‘گیس‘ سکولوں اور سڑکوں سے محروم ہے۔ ہاں چند شہروں میں مالدار لوگوں نے خوبصورت گھر اور پلازے بنائے مگر عوام تک خوشحالی اورترقی کے ثمرات نہیں پہنچ سکے۔
ایک وقت تھا جب بلوچستان میں سردار عطا اﷲ مینگل‘ سردار خیر بخش مری‘ نواب اکبر بگٹی‘ عبدالصمد خان اچکزئی‘ خان عبدالولی خان‘ غوث بخش بزنجو جیسے نامور سیاستدانوں کا طوطی بولتا تھا۔ یہ سب سیاسی اختلافات کے باوجود باہم دست و گریبان بھی نہیں ہوئے۔ اختلاف رائے کا سلیقہ رکھتے تھے اور عوام سے رابطہ کبھی 1960ء تا 77 ء تک جناح روڈ کوئٹہ میں چہل قدمی کرنے والا ایسا کون ہوگا جو ان سے نہ ملا ہو۔ 80 کے بعد حالات بدلے اب نئی نسل میں وہ رکھ رکھاؤ نہ رہا۔ سیاسی تہذیب کا رنگ ڈھنگ بدل گیا ہے۔ جس سے یہاں کے نئے سیاستدان بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایک طرف صوبے کے مسائل بہت ہیں۔ دوسری طرف یہاں افغان مہاجرین کے آنے کے بعد آبادی کا دباؤ بڑھ گیا۔ جس کی وجہ سے سیاسی تفریق بھی بڑھی ہے۔ تیسری طرز دہشت گردی اور عسکریت پسند علیحدگی پسندوں کو ایران اور افغانستان کے راستے بھارت کی فنڈنگ عروج پر ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں امن و امان کی صورتحال بگڑتی مسلکی بنیاد پر بھی فرقہ پرستی کو ہوا دی جاتی ہے۔ جو ایک علیحدہ درد سر بن جاتا ہے۔
ان تمام حالات میں بلوچستان کے موجودہ بلدیاتی الیکشن ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں۔ جس میں کامیاب ہونے والوں کی بڑی تعداد ایسے امیدواروں کی ہے جو آزاد ذاتی حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ آدھے سے زیادہ کامیاب ہونے والے امیدوار آزاد ہیں۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس طرح کم از کم غیرسیاسی ذہن رکھنے والے سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر اپنے علاقے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جس کے مثبت ثمرات سامنے آئیں گے ۔ ان انتخابات نے جس نئی سیاسی صورتحال کو نمایاں کیا ہے۔ اس میں جے یو آئی‘ باپ‘ بی این پی اور پشتون خواہ میپ بڑی جماعت کے طور پر نظر آ رہی ہیں۔ اگر مستقبل میں یہ مل کر متحد ہوکر کام کرتی ہیں تو بلوچستان میں ایک کامیاب وسیع البنیاد اتحادی حکومت بن سکتی ہے۔