اپنی پیشہ ورانہ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران 1977ء سے اب تک میں نے اپوزیشن کی متعدد تحریکوں کو دیکھا اور بھگتا ہوا ہے۔ 1977ء میں اس وقت کی بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی 9 جماعتوں نے پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) تشکیل دے کر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا اور ان جماعتوں نے اسی پلیٹ فارم پر 1977ء کے انتخابات میں حصہ بھی لیا اس طرح یہ اپوزیشن اتحاد انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوا جو بعدازاں تحریک نظام مصطفیؐ کے قالب میں ڈھل گیا۔ یہ اس تحریک کا درحقیقت ’’اسلامک ٹچ‘‘ تھا مگر انتخابات میں اس کے باوجود پی این اے کو حکمران پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور بمشکل تمام قومی اسمبلی کی 35,30 نشستیں پی این اے کے ہاتھ آ سکیں جبکہ پیپلز پارٹی کو دوتہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہو گئی۔ پی این اے نے دو روز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور انتخابی دھاندلیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی تحریک کو پرتشدد بنا دیا جس پر حکومت نے بھی ریاستی مشینری بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مخالف تحریک کو بزور دبانے کی پالیسی اختیار کی اور لاٹھی، گولی ، آنسو گیس سمیت پی این اے کے جلوسوں، ریلیوں اور مظاہروں پر ظلم و تشدد کی انتہاء کر دی جبکہ ملک کی تمام جیلیں پی این اے کے قائدین اور کارکنوں سے بھر گئیں۔
میں خود بھی اس وقت پولیس کے ہتھے چڑھ گیا جب -23 مارچ 1977ء کو میں جی پی او چوک سے ائر مارشل اصغر خاں کی قیادت میں نکلنے والے جلوس کی کوریج کے لئے وہاں موجود تھا۔ میں اس وقت روزنامہ وفاق کے لئے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا اور تازہ تازہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے اپنے اچھے مستقبل کا سوچ رہا تھا۔ مجھے پی این اے کے کارکنوں کے ساتھ گولی مارنے کی دھمکی دے کر حراست میں لیا گیا اور دو روز پولیس تھانہ سول لائنز کی حوالات میں رکھنے کے بعد کیمپ جیل لاہور منتقل کیا گیا۔ اس روز پی این اے کے جتنے بھی قائدین اور کارکن گرفتار ہوئے انہیں پہلے سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے ساتھ پولیس وین میں پی این اے کے جو کارکن ٹھونسے گئے تھے ان میں اے این پی کے قائد رائو مہروز اختر کے صاحبزادے مسعود اختر بھی شامل تھے جن کا پورا چہرہ لہولہان تھا۔ یہی حال گرفتار ہونے والے دوسرے کارکنوں کا تھا اور میرا اپنا چہرہ بھی پولیس تشدد سے سُوجا ہوا تھا۔ میں نے دو روز تک ’’ہلاکو خاں‘‘ کی زیر ہدائت پولیس تھانے میں ہونے والا تشدد بھی دیکھا اور بھگتا اور پھر مجھے بتایا گیا کہ میرے خلاف جلائو گھیرائو، بلوے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 18 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ایسے ہی مقدمات پی این اے کے گرفتار ہونے والے ہر لیڈر اور کارکن کے خلاف درج ہوتے رہے۔ کیمپ جیل میں ان سیاسی قائدین اور کارکنوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا وہ بھی میرے ذاتی مشاہدے میں رہا، اسی جیل میں ملک قاسم، رائو مہروز اختر ، خان اقبال احمد خاں، لیاقت بلوچ اور پی این اے کے دوسرے قائدین مقید تھے جن کی روزانہ قطار میں کھڑے کر کے حاضری لگائی جاتی۔ یہ حکومت مخالف تحریک فروری سے چار جولائی 1977ء تک چلی اور ریاستی ظلم و تشدد کی بے شمار داستانیں رقم کر گئی، اس تحریک کے دوران ہی پی این اے کے مقبول ترین سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بیک ڈور ملاقات کا جرم سرزد ہوا اور وہ پلک جھپکنے میں اپنی سیاست کے عروج سے زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں آ گرے۔ اس تحریک کے دوران پی این اے کے کسی لیڈر کی زبان سے کبھی ایسا فقرہ ادا ہوا نہ سنا کہ عدالتیں انہیں حکومت مخالف تحریک کے لئے تحفظ فراہم کریں۔ درپردہ اس تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی حمائت حاصل ہو گی مگر پوری تحریک کے دوران پی این اے کے کسی لیڈر کی زبان پر آرمی چیف کا نام تک نہیں آیا تھا۔ حکومت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈہ اختیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پی این اے کے قائدین اور کارکن بھی ریاستی جبر کے آگے ڈٹ کر کھڑے رہے۔
اسی طرح پی این اے کی کم و بیش انہی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ضیاء آمریت کے خلاف 1981ء میں تحریک بحالیٔ جمہوریت (ایم آر ڈی) قائم کر کے تحریک کا آغاز کیا۔ یہ تحریک 1988ء تک جاری رہی جس کے دوران ایم آر ڈی کے قائدین اور کارکن نظربندی، قلعہ بندی، قید، کوڑے اور طویل سزائوں سمیت ریاستی جبر کا ہر ہتھکنڈہ بھگتتے اور برداشت کرتے رہے۔ میں نے اس پوری تحریک کی نوائے وقت کے لئے کوریج کی اور کئی مقامات پر موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا۔ ایم آر ڈی کے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس تو معمول کی بات تھی، ان پر سیدھی گولیاں بھی فائر کی جاتی رہیں۔ چوک ہال روڈ میں پورا جلوس اغواء ہوتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور نیلہ گنبد میں ایم آر ڈی کے اعلان کردہ احتجاج کو دبانے کے لئے جو وحشیانہ تشدد کیا گیا وہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے۔ اتفاق سے میں بھی ملک محمد قاسم اور میاں خورشید محمود قصوری کے ہمراہ جامع مسجد نیلہ گنبد میں داخل ہو گیا تھا۔ ان کے ساتھ وہاں نمازیوں نے جو بدسلوکی کی اور عملاً دھکے دے کر مسجد سے باہر نکالا، وہ منظر آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ اس تحریک میں روزانہ کی بنیاد پر ایم آر ڈی کے قائدین اور کارکنوں کی ہونے والی گرفتاریوں کا ریکارڈ آج بھی ایم آر ڈی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات چودھری صفدر علی بندیشہ کے پاس محفوظ ہے ہمارے دوست سلیمان کھوکھر بھی اسی تحریک میں ریاستی جبر سہتے ، گرفتار ہوتے کندن بنے ہیں، مسلسل سات سال تک جاری رہنے والی اس تحریک کے دوران مجال ہے ایم آر ڈی کے کسی لیڈر یا کارکن نے حکومت یا اداروں کے ساتھ مفاہمت یا ان کی جانب سے کسی قسم کا تحفظ حاصل کرنے کا سوچا ہو اور اس کا کہیں کوئی ہلکا سا بھی اظہار کیا ہو۔ اس کے بعد بھی عوامی اتحاد، پی ڈی اے ، پی ڈی ایف، کمبائنڈ اپوزیشن الائنس اور اے آر ڈی کے پلیٹ فارموں پر حکومت مخالف تحریکیں چلائی گئیں جو ریاستی جبر برداشت کرنے کی نادر مثالوں سے ہی تعبیر ہوئیں۔ ان حکومت مخالف تحریکوں میں اداروں کے ساتھ ٹکرائو یا قانون ہاتھ میں لے کر گھیرائو جلائو کی راہ اختیار کرنے کے کوئی اِکا دکا واقعات تو ہو سکتے ہیں مگر مجموعی طور پر ان تحریکوں سے وابستہ لوگ حکومتی مشینری کے ظلم و جبر کا ہی سامنا کرتے رہے۔
اپوزیشن کی ان حکومت مخالف تحریکوں کا پس منظر اور پیش منظر دکھانے اور بیان کرنے کی ضرورت مجھے اس لئے محسوس ہوئی کہ آج سابق حکمران پی ٹی آئی نے اپنی حکومت مخالف تحریک کے ذریعے اپوزیشن کی تحریکوں والا سارا کلچر ہی تبدیل کر دیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اپوزیشن کی سیاست کے لئے بھی عمران خاں کو حکمرانی والی سہولتیں ہی میسر آئی ہیں اور -25 مئی کو لانگ مارچ کے حوالے سے عمران خاں اور ان کی پارٹی کو ان کے پرتشدد عزائم اور پروگراموں کی بنیاد پر ریاستی اتھارٹی کا تھوڑا سا جھٹکا لگا تو وہ ایسے تتر بتر ہوئے کہ اب تک نہیں سنبھل پائے، اس دوران بھی انہیں ادارہ جاتی تحفظ حاصل رہا۔ پھر بھی عمران خاں نے خیبر پی کے میں اپنی پارٹی کی صوبائی حکومت کے زیر سایہ محفوظ بیٹھ کر سپریم کورٹ میں درخواست ڈال دی کہ انہیں حکومت مخالف لانگ مارچ کے لئے گرفتاریوں، تشدد اور آنسو گیس کی شیلنگ سے عدالتی حکم کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے تو وہ 30 لاکھ افراد کے جمِ غفیر کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کر سکتے ہیں۔
ارے بھائی صاحب! یہ تو کسی حکومت مخالف تحریک کا اچھوتا اور نرالا انداز ہی ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ -25 مارچ کو بھی عمران خاں کو اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے عدالتی تحفظ حاصل ہوتا ہے تو وہ ڈی چوک میں اپنے کارکنوں کے ذریعے غدر مچا دیتے ہیں اور مارچ کے لئے عائد کی گئی عدالتی شرائط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے حکمرانوں کو ان کے گھر کے پاس پہنچ کر للکارے مارتے نظر آتے ہیں۔ اور غضب خدا کا۔ آج کل عمران خاں کی زبان سے ملک اور اداروں کے خلاف جو ہذیان نکل رہا ہے کیا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ماضی کی کسی اپوزیشن تحریک کے دوران تحریک کے کسی لیڈر کی زبان سے ایسا کوئی لفظ نکلتا اور اس کے باوجود وہ بغیر کسی قانونی کارروائی کے، ملک اور اداروں کی جانب منہ کر کے پھنکارے مارتا نظر آتا۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے لیڈر ولی خاں نے تو ایسے کوئی پھنکارے بھی نہیں مارے تھے مگر ان کی پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت کالعدم ہو گئی تھی۔ الطاف حسین پھنکارے مارتے رہے تو ا س کی سزا وہ اپنی پارٹی کو کالعدم کرا کے ملک سے باہر بیٹھ کر بھگت رہے ہیں جن کے اپنے سر پر بھی سخت سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔ بھئی ’’یہ کھیلن کو مانگے چاند‘‘ والے آج کے اپوزیشن لیڈر عمران خاں صاحب میں کیا خاصیت نظر آ گئی ہے کہ یہ قانون کی نگاہ میں ’’نیلی آنکھوں والے بچے‘‘ قرار پائے ہیں اور پوری سہولت کے ساتھ اس ملک خداداد میں سب کچھ تہس نہس کرنے کی ٹھانے بیٹھے ہیں۔ ایسی ہذیان کا تو ملک کا کوئی شہری تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ہمارے مخالفین کو اقتدار میں لانا تھا تو بہتر تھا اس ملک پر ایٹم بم چلا دیتے۔ اور اس ہذیان کو برداشت کرنے کی بھلا کوئی حد ہے کہ اداروں نے درست فیصلے (یعنی میرے حق میں فیصلے) نہ کئے تو یہ ملک تین ٹکڑوں میں بٹ ہو جائے گا، اس کی ایٹمی ٹیکنالوجی چُرا لی جائے گی اور ریاستی ادارے تباہ ہو جائیں گے۔ ارے بھائی۔ زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا ۔ کیا ملک کا کوئی سیاستدان تو کجا کوئی عام شہری بھی اپنے ملک اور اداروں کے بارے میں ایسے سخت ہذیان میں سے کوئی ایک ہلکا سا بھی لفظ ادا کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ تو جناب! کس زعم میں اور کس برتے پر عمران خاں صاحب پوری قوم کی لٹیا ڈبو رہے ہیں۔ میں تو یہ سوال کرنے کی جرأت بھی بمشکل ہی کر پا رہا ہوں کہ آج قانون اور انصاف کی عملداری کہاں بیٹھی جگالی کر رہی ہے؟ ’’کوئی سمجھائے کہ میں سمجھائوں کیا‘‘۔