ان فیکٹریوں کے مزدوروںکے لاکھوںبچے تھے جو تعلیم کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرکے ملک کوڈاکٹر ،انجینئر،فوجی افسروں اورسول سروس کے اعلیٰ عہدیداران فراہم کرتے رہے اوروہ بھی چندآنے یا روپے کی ماہانہ فیس میں۔ ان انڈسٹریز کاذکر اس لیے کررہاہوں کہ یہ سب جی ٹی روڈ پر واقعی تھیں۔بات میاں شفیع کی ’کریسنٹ اینڈ سٹار‘ انڈسٹری سے شروع ہوئی جواب ایک ایک مرلہ کے دفاتراوردودو مرلہ کے ریسٹورنٹس میں تبدیل ہوگئی۔ایک ہی وقت میں جوسینکڑوں لوگ یہاں سے رزق کماتے تھے اب وہ جگہ پلاٹوں میں تبدیل ہوکر کہیں خالی پڑی ہے توکہیں صرف چند لوگ پیزا بیچ رہے ہیں۔مرزا افضل کریم کی ملک بھر کو شوگر مل مشینری فراہم کرنے والی ’سٹار مغل انڈسٹری‘ میں کہیں ’بوفے‘ سجا ہوا ہے،کہیں کوئی چھوٹاموٹاہوٹل بن چکا ہے اورکہیں خالی زمین ماضی کی عظیم انڈسٹری کے زوال کانظارہ کرتی ہوئی ماتم کررہی ہوگی۔ یہ ماتم توجی ٹی روڈ کے قریب واقع انور انڈسٹریز بھی کررہی ہوگی کیونکہ وہ انڈسٹری جوسینکڑوں خاندانوں کوروٹی روزی فراہم کرتی تھی،اب وہ ایک شاپنگ مال میں تبدیل ہوچکی ہے۔ان فیکٹریوں کے قریب سے گزرتے ہوئے دل بہت افسردہ سا ہوجاتا ہے۔اب یہ فیکٹریاں ختم شد،مالکان کی کوٹھیاں اوربنگلے فروخت شد،یہاں سے روزانہ رزق کمانے والے مزدور بے کار شد اور فیکٹریوں کاجاہ وجلال زوال شدہو۔اب یہاں ’کلائمیکس آباد‘ کے نام سے پہلے پلاٹ بیچے گئے پھر باقیماندہ حصہ ایک نجی کالج کو کرایہ پر دے دیا گیا۔ملک کی صنعتی پیداوارماضی کاقصہ ہوئی۔
70ء کی دہائی کے آغاز پر یااس سے کچھ قبل جی ٹی روڈ پر سرامکس کاسامان بنانے کی کئی فیکٹریاں تھیں جن میں اسماعیل سرامکس کابڑانام تھا۔اسی فیکٹری میں اسلم لون نام کے ایک صاحب مینجمنٹ میں تھے جنھوں نے سرامکس کے ا سراروراموز کوایساپایا کہ ان کے ہاتھ میں آنے والی مٹی سونا بن جاتی۔اسلم لون نے اسماعیل سرامکس سے ایک ہوکر’لون چائنہ‘ کے نام سے سرامکس کی فیکٹری بنائی جو شہر سے گذرنے والی اپر چناب نہر سے لے کرلاہور کی جانب کئی کلومیٹر تک پھیل گئی۔اس کا ساختہ سامان دساور کو جاتا اور ملک کے لیے زرمبادلہ کماکرلیتا۔سینکڑوں کاریگر ،مزدور اورخواتین اس انڈسٹری سے منسلک تھیں۔ ان خاندانوں کوروزی مہیا کرنالون چائنہ سرامکس کے ذمے تھا۔اسلم لون مرحوم غالباً تین بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔کئی بار وزیر اعظم بے نظیربھٹو نے اس فیکٹری میں آتے جاتے آرام کیا۔لون چائنہ سرامکس کا عروج ہم نے دیکھااور ایسا دیکھا کہ آنکھیںخیرہ ہوگئیں۔پھر ’میلا مائن‘ نام سے ایک پلاسٹک مارکیٹ میں آیاجو ایک آدھا سال میں ہی ایسامقبول ہواکہ خالص چینی کے برتنوں کی مانگ میں کمی آناشروع ہوگئی۔لون چائنہ کو اس سے اتنا نقصان اگرچہ نہیں پہنچا تھا مگر نااتفاقی نام کے منحوس سایوں نے اس فیکٹری اورفیکٹری والوں کا گھر دستک دے دی۔اب اس فیکٹری میں کچھ نہیں بنتا،ایک پلیٹ یا چائے کا کپ بھی نہیں مگر جی ٹی روڈپر شہر کے نئے کمرشل ایریا میں لون چائنہ کی زمین کاشمار کیا جائے تواربوں میں ہوگااوروہ بھی اوپر والے اربوں میں۔ جب زمین ہی روزانہ کے حساب سے قیمتی ہورہی ہوتو کہاں کاساختہ سامان، کہاں کے کاریگر، کہاں کے خواتین مزدور ،کہاں کی برآمدات اور کہاں کازرمبادلہ۔ خالی زمینیں کتناکچھ کھاگئی ۔
ایک بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ جی ٹی روڈ پر ہی کنگنی والا کے مقام پر باتھ روم کی جملہ اشیاء سرامکس کے بیسن ،فیسنگ ٹائل ،مسلم شاوراور ایسی دیگر متعلقہ اشیائے صرف کی مارکیٹ تقریباً پندرہ سال قبل وجود میں آئی اوراس وقت یقینی طورپر یہ ایشیاکی اپنی مصنوعات کے لحاظ سے سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔اس کے گردونواح میں موجود گلیوں میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے کارخانے وجود میں آچکے ہیں اور ہزاروںلوگ روز گار کمارہے ہیں۔جو بیسن لاہور میں تین ہزار کاملتا ہے وہ اس مارکیٹ میں سات سو کے لگ بھگ آسانی سے مل جاتا ہے۔اس مارکیٹ کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہواکہ یہاں ایک مرحوم صوفی ایڈووکیٹ ،محمد حسین اپل وکیل کے وسیع وعریض مزار پر اس کے متولی اور ایک صنعت کار نے قبضہ کر کے اپنے کاروبار کا ایساچمکایا کہ مزارپہلے دھندلایا اورپھرنظر سے اوجھل ہوگیا۔
شہر کے اندر 1800کے آخر میں بننے والی ایک انڈسٹری ’ایچ ایم عبداللہ‘ ابھی تک صرف اس لیے موجود ہے کہ اس کے سربراہ ایوب الحسن کھوکھر جہاندیدہ آدمی ہیں۔گلی کی بدروں میں دجلہ وفرات دیکھ لیتے ہیں۔انھیں انڈسٹری سے عشق ہے۔گھریلو تضادات نے یہاں بھی پنجے گاڑے مگر ایوب الحسن کے ناخن تدبیرنے اسے سلجھایالیا۔اب ان کی فرمانبردار اولادبھی ان کا پوراساتھ دے رہی ہے۔گوجرانوالہ میں ان کے علاوہ ایک بہت بڑی انڈسٹری ’سپرایشیا‘ موجود ہے جو ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔میں جب بھی جی ٹی روڈ سے گزرتا ہوں تو سینکڑوں انڈسٹریز کو شادی ہالوں اورمارکی میں بدلا ہوادیکھ کر افسردہ ہوجاتا ہوں۔اب شہر کے روڈ سیاہ صنعت کارکی بجائے پلاٹ کاٹے ،بیچنے اورقبضہ گروپ کے سیاستدان رہ گئے ہیں۔