کیا قرض پیکج ہوتا ہے 

تحریر چوہدری فرحان شوکت ہنجرا 
لیجئے جناب بلی تھیلے سے باہر آہی گئی پنجاب حکومت نے کسانوں سے گندم نہ خریدنے اور مقررہ قیمت پر گندم خریدنے سے انکار کرکے کسانوں کو شٹ اپ کال دی تھی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا برملا اظہار کہ گندم خریداری میں گھپلے ہوتے تھے لہٰذا ہم نے کرپشن اور گھپلوں کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں اب ہم کسانوں کو براہ راست 300ارب روپے کی سبسڈی دیں گے کسان اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ شاید ان کو گندم پر جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے شائد اس کا مداوا کسان پیکج کی صورت میں نکل اے گا لیکن یہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مترادف ہوا حکومت پنجاب 4جون سے وزیر اعلیٰ پنجاب کسان کارڈ کی رجسٹریشن کا آغاز کر رہی ہے جس کا عنوان رکھا گیا ہے 300 ارب روپے کے بلاسود پیداواری قرضہ جات فی کسان ڈیڑھ لاکھ روپے تک آسان قرضہ جات کھاد بیج کی خریداری میں آسانی اس سے کسان خوشحال پنجاب خوشحال ہوگا وغیرہ وغیرہ کے خوشنما اشتہاروں میں ذکر گیا ہے ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کسان پیکج نہیں قرض پیکج ہوگا اسے کہتے ہیں زیرو جمع زیرو برابر ہے زیرو اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے حکومت پنجاب دے پلے نہیں دھیلا تے کردی پھر دی اے میلہ میلہ یہ پنجاب کے 5لاکھ کسانوں کو قرض کے مزید شکنجے میں کسنے کے مترادف ہوگا کہا جا رہا ہے کہ کسانوں کو کھاد بیج کی خریداری میں آسانی ہوگی حالات گواہ ہیں کسانوں کو عزت واحترام سے کھاد نہیں ملی اور جو کھاد ملی وہ بلیک میں ملی گندم کی آگائی کاسیزن سب کے سامنے ہے حکومت انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی کسان کھاد لینے کیلئے خوار رہے اور اس پیکج سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ پنجاب کے جن اضلاع میں چاول کی کاشت ہونے جا رہی ہے وہ کاشتکار دھیان دیں ان کی چاول کی فصل مونجی کا حال بھی گندم والے حالات نظرآتے دکھائی دے رہے ہیں ہاں ان حکمرانوں کو اگر خیال ہے تو اپنی شوگر ملز کا ہے چینی کی پیداوار اور قیمت کا تعین یہی حکمران طبقہ شوگر ایڈوائزری کونسل میں لے جاکر جب چاہے چینی ایکسپورٹ کروا لیتا ہے اور لکھ کر یقین دہانیاں کراتا ہے کہ چینی باہر بھجوانے سے چینی کے نرخ ہرگز نہیں بڑھیں گے اور اس کے بعد یہی شوگر مافیا چینی ایکسپورٹ کرکے اپنی شوگر ملز سے اندرون ملک چینی کی سپلائی روک لیتا ہے اور اپنی چینی بیرون ممالک بھجواتا رہتا ہے اور پھر شوگر ایڈوائزری بورڈ سے چینی امپورٹ کرنے کا فیصلہ کر واتا ہے لہذا امپورٹ ایکسپورٹ کے نام پر اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اربوں روپے باآسانی اس شوگر مافیا کے پاس چلے جاتے ہیں ا ب بھی چینی کی قیمت سب کے سامنے ہے جس پر حکومتی کنٹرول نظر نہیں آتا شوگر ملز مالکان کے خلاف کسی کی جرات نہیں کہ ان کا سٹاک  کوئی ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر چیک کر سکیں بس انتظامیہ کو آلو پیاز ٹماٹر کی قیمت چیک کرنے پر رسمی طور پر مرکوز کرکیرکھا ہوا ہے 
صاف صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت پنجاب آئندہ کسانوں سے گندم اور دیگر اجناس نہیں خریدے گی اب کسان سوچیں کہ انہیں اس چیلنج سے کیسے نمٹنا ہے اور اگر گندم نہیں خریدنی اور گندم خریداری میں محکمہ فوڈ گھپلے کرتا تھا تو پھر محکمہ فوڈ پنجاب کو بھی ختم کریں کیوں سالانہ اربوں روپے صرف گوداموں کے سٹرکچر پر خرچ کیے جاتے ہیں پرائیویٹ سیکٹر نے ہی گندم خریداری کرنی ہے تو وہ خود اپنے گودام بنا لے گا موجودہ پنجاب حکومت نے سردرد کا حل دو گولی ڈسپرین نہیں بلکہ سر قلم کرنے میں نکالا ہے 
حکومت پنجاب پنجاب بھر میں سستا آٹا اور سستی روٹی کا بہت کریڈٹ لے رہی ہے کہ ہمارے اقدامات کی وجہ سے آٹا اور روٹی سستی ہونے سے عوام کو بہت بڑا ریلیف ملا ہے لیکن اس کا ذکر نہیں آیا کہ ہم نے تو خود گندم کی امدادی قیمت 3900روپے فی من مقرر کی تھی لیکن اس پر ہم عملدرآمد نہیں کرواسکتے کسانوں سے گندم ملز اور آٹا مافیا نے کوڑیوں کے بھاؤ خریدی ہے کسانوں کا معاشی قتل سر عام سر کھیت ہوا ہے اس پنجاب حکومت کی نظر میں شہری آبادی والے عوام اور دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام نہیں ہیں گندم سے ہی آٹا میدہ سوجی فائن بنتا ہے وگرنہ فلور ملز میں کوئی ریت نہیں ڈالی جاتی کہ وہ ریفائن کرکے آٹا میدہ سوجی چوکر نکالتی ہے حکومت نے کسانوں کو دھتکارا ہے ہر گھر سے ان کیلئے بدعائیں کی جارہی ہیں اللہ تعالیٰ  انصاف کرے گا اور یہ حکمران طبقہ ذلیل و رسوا ہوگا انشاء￿ اللہ ،دوسری طرف خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی کے ایکسپورٹرز کا گندم کی برآمد کامطلبہ مسترد کر دیا ہے سرپلس ذخائر کے باوجود گندم ایکسپورٹ نہیں کی جائے گی تاہم گندم مصنوعات کی ایکسپورٹ بارے تجاویز زیر غور ہیں حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے بالکل درست کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے کسانوں کو بے آسرا کر دیا ہے کسانوں کے نقصانات کا ڈیٹا مرتب کر رہیہیں کسانوں کا حق کسی کو کھانے نہیں دیں گے اس حکومت نے کسانوں سمیت مڈل کلاس طبقہ ماردیا ہے کسانوں کی سبسڈی مافیا کے منہ میں نہیں جانے دیں گے حکومت جاگیر داروں کی بجائے عام آدمی پر اٹھارہ فیصد ٹیکس لگانا چاہتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن حقیقت میں اس وقت کسانوں سے ظلم و ناانصافی پر ہر سطح پر آواز بلند کرتے نظر آ رہے ہیں جماعت اسلامی اور اس کی کسان تنظیم جے آئی کسان بورڈ پاکستان نے کسان مارچ اور احتجاجی مظاہروں و کیمپوں کا انعقاد کیا ہے اور مسلسل میدان میں ہیں کسانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی اور کسان بورڈ کے دستے بازو بنیں اور جماعت اسلامی کی کسانوں کے حقوق کیلئے جو جہدوجہد کر رہی ہے آس تحریک کا ہراول دستے بنیں۔

ای پیپر دی نیشن