اشاعت برائے  3 جون   آئی ایم ایف سے نجات؟

 سقراط کو کون نہیں جانتا ؟اس کے فلسفہ کیسکول میں رہنے کی صرف ایک ہی شرط تھی کہ برداشت کا مظاہرہ کیا جائے،اس کے سکول کا سب سے بڑا قاعدہ یہ تھا کہ اگر کوئی طالبعلم بغیر کسی ٹھوس وجہ بلند آواز میں بات کر ے ،دوسروں کوگالیاں دے ، بدتمیزی کرے، شورو غوغا کرے، دوسروں سیجسمانی لڑائی کرے ،دوسروں کو گالیاںیا دھمکیاں دیاس طالبعلم کو فوری طور پر سکول سے نکال دیا جاتا تھا،اس کے سکول کی بنیادی تربیت یہ تھی کہ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سنے جائیں، اسکے سکول میں زیر تعلیم تمام لوگ بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے، سقراط کا کہنا تھا برداشت معاشرے کی حقیقی روح ہوتی ہے، معاشرے میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو بات چیت کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور جب بات چیت بند ہوجاتی ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے،سقراط کا کہنا تھا کہ اختلافات  دور کرنے کا واحد حل دلائل دینا ہے ،اس کا کہنا تھا کہ منطق صرف اور صرف پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے، سقراط  کا دعویٰ تھا کہ معاشرہ اْس وقت تک ترقی کرتا رہتا  ہے جب تک برداشت اور تحمل کا فن پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہے میں توڑ پھوڑ اور دوریاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں، 
سقراط کی یہ بات تو سونے میں تولنے والی ہے کہ عالم صرف وہی ہے جو جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے،سقراط کا یہ بھی کہنا تھا کہ 
اس وقت تک عالم عالم نہیں ہوسکتا جب تک ہر بات میں برداشت نہ آجائے،ہم پاکستانی اسلامی معاشرہ میں رہنے اور آخری نبیؐ کے پیرو کار کہلا کر ہم فخرمحسوس کرتے ہیں اور اس کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں، اسلامی معاشرے کی بنیادی تعریف ہی رواداری ، برداشت ، تحمل اور حکمت عملی اپنانا ہے لیکن عملی زندگی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وطن عزیز میںبڑھتی تنقید کی وجہ سے تحمل اور برداشت میں شدید کمی ہورہی ہے،
کہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست پر گفتگو تقسیم کرتی ہے،اس سے لڑائی ہو جاتی ہے اور اکثر اوقات اس سے دوریاں مستقل پیدا ہوجاتی ہیں، 
کہا جاتا ہے کہ روایتی میڈیااور غیر رواتی میڈیا یعنی سوشل میڈیا آزاد ہونا چاہیے،لیکن یہاں جو لوگ میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہیں  وہی اب سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی پر فکر مند ہیں، وہ آواز بلند کررہے ہیں سوشل میڈیا کی بلاخوف بلاروک ٹوک آزادی نے جھوٹ کا وہ نیا کلچر پیدا کردیا ہے جس سے معاشرے میں شدید انتشار پیدا ہوگیا ہے، مخصوص گروہ ان پلیٹ فورمز کے ذریعے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے دن رات کام کررہے ہیں،اگر ہم سچ کاسا منا کرنے کیلئے تیار ہوں تو جان لیں کہ عدم برداشت کا زہر ہمیں کھا رہا ہے اور ہمارے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے، اگر ہم سقراط کے پیمانے میںتولیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے ،اس میں سب سے بڑا کردار اس مہنگائی کا ہے جس کا اڑدھا منہ کھولے کھڑا ہمیں نگل رہا ہے،مہنگائی نے گذشتہ پانچ سالوں میں ہمارے مشترکہ فیملی سسٹم کے بھی بخیے ادھیڑ دیئے ہیں،اس کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کی آزاد اڑان ہے،یہ وہ واحد تباہ کن پالیسی تھی جس نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکردیا ہے، ڈالر سے منسلک اشیاء کی قیمتیں تو بڑھنی ہی تھیں لیکن کوئی میکنزم نہ ہونیکی وجہ سے مقامی اشیاء کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے،مہنگائی اتنی بڑھ گئی کہ عوام اپنی زندگیوں سے بھی عاجز آگئے ،ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی شیطانی جال بنا جارہا ہے جس میں ایک بات کوئی پھنستا ہے تو اسیاس میں سے نکلنے کیلئے کوئی راستہ نہیں ملے گا،مگر آج پانچ سالوں بعدوطن عزیز میں پہلی بار سیمنٹ ، سریا، گوشت، سبزیاں ، پھل، ڈبل روٹی ، گھی، تیل ، چاول ، ایل پی جی سمیت تمام اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی  دیکھنے میں آرہی ہے جس سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم بجلی اور پٹرول کی ہوشربا قیمتوں سے عوام ابھی بھی تک سخت پریشان ہیں،  بجلی اور گیس کے ہزروں روپوںمالیتی بل ہر مہینے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں،جب تک آئی ایم ایف سے نجات ملتی پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی یا اس میں ریلیف ملنا عوام کی قسمت میں نہیں ہے،عوام کو یہ بھی نہیں پتہ کہ آئی ایف سے کب نجات ملے گی؟

ای پیپر دی نیشن