ثاقب حسن لودھی
8 فروری 2024 کے بعد ملک بھر میں دھاندلی کا روایتی واویلا کیا گیا۔ قوم کو مایوسی کی جانب دکھیلنے کی کوشش کی گئی مگر سیاسی و عسکری قیادت کی دانش و بصیرت سے اقتدار پر امن طریقے سے منتخب شدہ حکومت کے حوالے کیا گیا۔ منتخب شدہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آہستہ آہستہ مایوسی کے بادل ختم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ حکومت ملک کو درپیش تمام مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عوام کے طرز زندگی میں حقیقی اور مثبت تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ روز مرہ اشیا ء کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ بڑھتی بیرونی سرمایہ کاری اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنا مثبت امیج اجاگر کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ حال ہی میں عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے آئی ٹی و زراعت سیکٹر میں تقریبا 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ظاہر کرتی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے اور نجی کمپنیاں اپنا سرمایہ لگانے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں۔ حال ہی میں چینی کمپنیوں کے ایک بڑے وفد نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ ان سب کے علاوہ سی پیک کا دوبارہ سے فعال ہو نا پاکستانی معیثت کے لیے بھی نیک شگون ہے۔ ایم ایل ون کی لاگت میں کمی کے ساتھ پروپیگنڈا کیا گیا کہ شاید اب چین پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں رکھتا مگر چینی تاجروں کی آمد بلخصوص سولر پینل میں چینی معاونت نے ان تمام خدشات کو دور کر دیا ہے۔ مزید برآں سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے قبل قطر اور کویت کے امیر کا دورہ بھی نہایت حوصلہ افزاء بات ہے۔ قوی امید ہے کہ خلیجی ممالک دوبارہ سے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کریں گے جن میں گوادر میں پیٹروکیمیکل انڈسٹری کا قیام شامل ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا نہ صرف خطے بلکہ مشرق وسطی میں بھی کردار بڑھ رہا ہے۔ ان تمام تر عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان تیزی سے ترقی کا سفر طے کر رہا ہے اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اگر اگلے چند سال ملک میں سیاسی استحکام رہا تو بہت جلد پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کو خیر آباد کہہ کر عالمی سطح پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں موجود ہو گا( صاحب مضمون : نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سکالر ہیں )