سرفروشی اثاثہ مرے اسلاف کا ہے 

فوج سے ہر پاکستانی محبت کرتا ہے اس لیے کہ پاک فوج کی بہادری اور قربانیاں وطن عزیز کے دفاع اور سلامتی کی ضامن ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاک فوج نے ہر محاذ پر جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا یا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔پاک فوج نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے جنگی تاریخ میں اپنا ایک خاص مقام پیدا کیا ہے،جسے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی بات کریں تو سیا چن کامحاذ ہو یا پھر افغانستان کے ساتھ طویل سرحدی پٹی۔بھارت کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرنا ہو یا انکے خفیہ منصوبوں کی ناکامی، بیرونی مداخلت سے جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کو ناکام بنانا ہو یا اندرون ملک بیٹھے ہوئے ملک دشمن عناصر کی سرکوبی، ہر میدان میں پاکستانی افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوایا ہے۔تقسیم ہندوستا ں کے وقت بھارتی سیاست دانوں نے ماونٹ بیٹن کو اپنا پہلا گورنر جنرل تسلیم کرلیا اور ماونٹ بیٹن کی خواہش تھی کہ پاکستانی قیادت بھی انہیں ہی اپنا گورنر جنرل تسلیم کرے۔یعنی دونوں ملکوں کی مرکزی قیادت اور فوج ایک ہی رہے۔بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کا کہنا تھا کہ فوج کی تقسیم کسی صُورت نہیں ہونی چاہیے،نہرو نے کہا کہ ’’پاکستان جیسی چھوٹی ریاستیں آج کی دنیا میں اپنی قوم اور مُلک کی حفاظت نہیں کر سکتیں اور نہ ہی وہ خود مختار زندگی گزار سکتی ہیں۔بھارتی سیاست دانوں کا خیال تھا کہ اگر فوج تقسیم نہ ہو اور دونوں ملکو ں کا گورنر جنرل بھی ایک ہی رہے تو وہ بہت جلد مسلم علاقوں کو طاقت کے زریعے اپنے کنٹرول میں کرلیں گے۔بانی پاکستان قائدِ اعظم محمّد علی جناح ہندووں کی سوچ سے بخوبی آگاہ تھے اس لیے انہوں نے ایسا پاکستان لینے سے انکار کر دیا ، جس میں فوج نہ ہو، ان کا خیال تھا کہ فوج کے بغیر لی گئی آزادی ادھوری ہو گی۔قائدِ اعظم پاک فوج کو بہت عزیز رکھتے تھے،انہیں یقین تھا کہ فوج مضبوط ہوگی، تو پاکستان مضبوط ہوگا۔فوج اور عسکری تربیت کی اہمیت کے پیشِ نظر ہی قائد اعظم نے پاکستان میں کاکول ملٹری اکیڈمی قائم کروائی۔ جہاں 26 جولائی 1948 ء سے پہلے کورس کا آغاز ہوا۔11 اکتوبر 1947 ء کو کراچی میں پاکستان کی تینوں مسلّح افواج کے افسران سے خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’ہم ایک چوراہے پر کھڑے ہیں، ابھی ہمارے آرام کے دن نہیں آئے، ہم حالتِ جنگ میں ہیں، بے شمار مسلمان مشرقی پنجاب، دہلی اور دیگر شہروں میں سخت مظالم کا شکار ہیں، مَیں آپ سب افسران سے پورے پورے تعاون کی اپیل کرتا ہوں۔‘‘13 اپریل 1948 ء کو رسال پور میں،’’رائل پاکستان ائیر فورس‘‘کے قیام کا اعلان کیاگیااور پھر 14 جون 1948 ء کو اسٹاف کالج، کوئٹہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے قاعد اعظم نے کہ ’’پاکستانی فوج اہلیانِ پاکستان کے جان و مال اور عزّت و آبرو کی پاسبان ہے۔‘‘ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ رائفلز، چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں منقسم اور غیر منظّم فوج اتنی جلدی ایک طاقت کے طور پر دنیا میں اپنی پہچان بنا لے گی۔ وسائل کی کمی اور دیگر چیلنجز کے باوجود پاک فوج نے حوصلے، ہمّت، خلوص اور سب سے بڑھ کرقوتِ ایمانی سے کام لیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا تعین کیا اور گرم سرد موسم کے لیے خود کو تیار کیا۔ 1948ء میں کشمیر کی جنگ سے شروع ہونے والے سفر میں پاک فوج نے ثابت کیا کہ وہ ہر لحاظ سے دشمن کا مقابلہ کرنے اور مادر وطن کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔ پاک فوج نہ صرف جنگی محاذوں پر بلکہ قدرتی آفات کے دوران بھی اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ 2005 ء کا زلزلہ ہو یا 2010ء اور 2022ء کا سیلاب یا شہری علاقوں میں شرپسند عناصر کی مذموم کارروائیاں، قبائلی علاقوں میں امن کی بحالی کے آپریشنز ہوں یا جان جوکھوں میں ڈال کے پاکستانی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کا عزم، پاک فوج کی لاتعداد قربانیاں، شہادتیں گواہ ہیں کہ ہر کڑے وقت میں فوج پاکستان کے وقار میں اضافے ہی کا باعث بنی ہے۔آپریشن ضربِ عضب،خیبر وَن، خیبر ٹو، تھری، آپریشن دیر،آپریشن سوات، اپریشن بونیر، آپریشن بلیک تھنڈر، آپریشن راہِ راست، راہِ نجات اور ردّالفساد، افواجِ پاکستان کی جراتوں کی ایک طویل کہانی ہے، جسے نہ جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی تاریخ کے اوراق سے مٹایا جا سکتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی فوج ملک کی حفاظت، سلامتی اور استحکام کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ ان کی بہادری اور قربانیاں ہمیں فخر کا احساس دلاتی ہیں اور ہمارے دلوں میں ان کے لیے احترام اور محبت کا جذبہ بڑھاتی ہیں۔ فوج کے جوانوں کی قربانیاں ہماری آزادی اور خوشحالی کی ضامن ہیں اور ہمیں ان پر ناز ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے یہ رواج بنتا جارہا ہے کہ سیاست میں پیچھے رہ جانے والے اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور اقربا پروری کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال کے خود کو معصوم بنا کے پیش کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔سماجی رابطوں پر فرضی اکاونٹس سے ریاست مخالف بیانیہ کو ہوا دیتے ہیں اور فوج کے کردار پر مختلف انداز میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔سابق حکومت کے دو ر میں ہر دوسرے مہینے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ خود کو بڑا لیڈر کہلوانے کا شوق رکھنے والوں کے پاس دو بندے بھی ایسے نہیں تھے جن کی کارکردگی کو فخر سے پیش کرسکیں۔نو مئی کا واقعہ شکست خوردہ سیاست دانوں کی طرف سے خود کو ریاست سے برتر سمجھنے کا پیغام دیتا ہے۔یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیسے ایک سیاست دان اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کے لیے نوجوانوں کوورغلا کے ریاستی اداروں پر حملے کے لیے تیار کرتا ہے ۔اس کے پارٹی راہنما مشتعل جتھوں کی قیادت کرتے ہیں اور ملکی تاریخ میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جنہیں لکھتے قلم کانپ جاتا ہے ۔اب یہ ہمارے نظام انصاف کے لیے بھی امتحان ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث مرکزی لوگوں کو جلد اور سخت سزائیں سنائی جائیں۔ اور ہم یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ پارٹی قیادت کے زریعے ورغلائے گئے وہ نوجوان جو برائے راست کسی تخریبی کاروائی کا حصہ نہیں تھے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔
پاک فوج زندہ باد ۔۔پاکستان زندہ باد
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن