ہماری جمہوریت غلامی کی ایک جدید شکل ہے 

آپ کو اپنے شہر کے پرائیویٹ اسکولوں، ہسپتالوں، مختلف تجارتی اداروں، فیکٹریوں، سنوکر کھیلنے اور شیشہ پینے والی کلبوں کے دروازوں پر کسی وکیل صاحب کی نیم پلیٹ ضرور دکھائی دے گی۔ یہ نیم پلیٹ تعویز، دافع، بلیات کا سا اثر رکھتی ہے۔ یقین نہ آئے تو آزما دیکھ لیں۔ اس کے اثر سے بندہ بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری آفات کے گزر سے بچا رہتا ہے۔ بار ایسوسی ایشن وکلاء کی پیشہ ورانہ تنظیم کا نام ہے۔ ہمارے ملک کا یہ واحد ادارہ ہے جہاں باقاعدگی سے ہر سال الیکشن ہوتے ہیں۔ اسی باعث کچہریوں میں سارا سال الیکشن کا ماحول رہتا ہے۔ وکلاء برادری میں انس، محبت اور بھائی چارہ دکھائی دیتا ہے۔ بس جی، جناب لگی رہتی ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں سب سے طاقتور ادارہ پولیس کا ہے۔ ذکر صرف سویلین اداروں کا چِھڑا ہے۔ پولیس اور کچہری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پولیس کا احاطہ کچہری میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کوئی بھی بار ایسوسی ایشن پولیس کا اپنی کچہری میں داخلہ بند کر سکتی ہے۔ پچھلے دنوں گوجرانوالہ سیشن کورٹ میں دو روز پولیس کا داخلہ بند رہا۔ وکلاء ایک وکیل صاحب کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس اور وکلاء کے درمیان خوب مقابلہ ہوا، کڑا بھی اور کڑوا بھی۔ آخر کار پولیس کو ہار ماننا پڑی۔ مقدمہ خارج ہو کر رہا۔ پھر بار طاقت کے غلط استعمال کی بہت سی مثالیں بھی سامنے ہیں۔ بے شمار بے گناہوں کے خلاف مقدمات کا اندراج، بہت سے گہنگاروں کا مقدمات سے اخراج اور بھی بہت کچھ۔ لیکن برا نہ منائیں! جب طاقت کا صحیح استعمال ہوگا تو یقینا غلط استعمال بھی ہو گا۔ بار ایسوسی ایشنز پورے معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔ ہمارا پورا سماج زوال مسلسل کا شکار ہے۔ زوال جب کسی سماج کا رخ کرتا ہے تو سماج کیلئے ممکن نہیں رہتاکہ اس میں کمال کے چند جزیرے آباد کر سکے۔ 
بات کو اس طرح اور واضح کرتا ہوں۔ 
بیرسٹر جسٹس کامران شیخ کی مدر اِن لاء انتقال کر گئیں۔ انکے سسرال گوجرانوالہ میں ہیں۔ دوست احباب فاتحہ خوانی کیلئے جمع تھے۔ موضوع سخن ڈاکٹروں کی حرامکاریاں، بد دیانتیاں اور ڈکیتیاں تھا۔ سبھی بڑھ چڑھ کر اپنے اپنے واقعات سنا رہے تھے۔ اذان کی آواز بلند ہوئی۔ سبھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ کالم نگار اٹھا اور بولا۔آپ نیک لوگ اللہ کے گھر جا رہے ہیں اور میں گنہگار اپنے گھر۔ اللہ جی سے یہ ضرور عرض کریں۔ اللہ جی! ہمارے جج، وکیل، تاجر، صنعتکار، دکاندار، پروفیسر، مزدور، ریڑھی بان، صفائی ستھرائی والے سبھی نیک پاک اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صرف ڈاکٹر صاحبان ہی گندے اور بددیانت پائے جاتے ہیں۔ اللہ جی انہیں بھی صاف صاف اور ایماندار بنا دیجئے تاکہ ہمارا سارا معاشرہ پاکیزہ اورمثالی معاشرہ بن جائے۔ کرپشن ہمارے سبھی اداروں اور طبقوں میں موجود ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ کسی کو سرے سے موقع ہی کم ملا اور کسی کو زیادہ۔ دودھوں دھلا کوئی بھی نہیں۔ 
سابق ن لیگی میئر میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ شیخ ثروت اکرام نے ایک ایسی کرپشن کی نشاندہی کی ہے جس نے ہمارا سارا خون ہی نچوڑ لیا ہے۔ اس ن لیگی سیاسی کارکن کی آگاہی اور جرأت اظہار قابل تعریف ہے ورنہ ہمارے سیاسی کارکن بھی جماعتی، سیاسی غلامی سے آزاد دکھائی نہیں دیتے۔کالم نگار کو یاد ہے چوہدری قدرت اللہ مرحوم و مغفور ایڈیٹر روزنامہ ’’پاکستان‘‘بہت عالم، فاضل اخبار نویس تھے۔
 ایک مرتبہ فرمانے لگے۔سچی بات یوں ہے کہ ہم سب اپنے چوروں کا دفاع کرتے رہتے ہیں ورنہ سبھی سیاستدان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ثروت اکرام نے لکھا۔ IPPs (بجلی پیدا کرنیوالے پرائیویٹ ادارے)اکیلا صرف ایک ایسا شعبہ ہے جس نے 32سالوں میں پاکستان کو موت کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ ان بجلی پیدا کرنیوالے 90پرائیویٹ اداروں کے معاہدوں کی قاتلانہ شرائط سے شائد آپ واقف ہوں۔لیکن آپ نہیں جانتے کہ ان کے مالکان کون ہیں؟ لو دل تھام لیجئے۔ 28فیصد حصص کے مالکان شریف خاندان۔ 16فیصد کے مالکان ن لیگی رہنما۔16فیصد حصص کے مالکان زرداری خاندان۔ 8فیصد حصص کے مالکان پیپلز پارٹی کے رہنما۔ 10فیصد حصص کے مالکان ہماری اسٹیبلشمنٹ۔ 8فیصد حصص کے مالکان چینی سرمایہ کار۔ 7فیصد حصص کے مالکان عرب سرمایہ کار۔ 7فیصد حصص کے مالکان پاکستانی سرمایہ کار۔ اسطرح ان میں سے 78فیصد اداروں کے مالکان صرف تین گروپ میاں شریف فیملی، زرداری فیملی، ان کے بھائی بند اور اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اس سے آگے کا المیہ بھی سن لیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاکستان کی تمام شوگر ملز، اسٹیل ملز، سیمنٹ، کھاد، کپڑے، بینک، ایل پی جی اور گاڑیاں بنانے کے لائسنس ہیں۔ یہ پرائیویٹ بجلی گھر پاکستان کی کل ضرورت کا 125فیصد پیدا کرنے کی صلاحیت بتا کر لگائے گئے ہیں۔ لیکن یہ مہیا صرف 48فیصد کرتے ہیں۔ قیمت 125فیصد کی وصول کرتے آرہے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں انہیں 6ہزار ارب دینے کے باوجود ملک ان کا 2900ارب کا اب بھی مقروض ہے۔ ہماری خانہ بربادی کیلئے وڈیرے ہی کافی تھے جو اب لوٹ کھسوٹ کیلئے لٹیرے بھی تاجروں کا روپ دھار کر آگئے ہیں۔ ان قرضوں کے باعث ہمارا ملک صرف نام کا آزاد ملک رہ گیا ہے۔ ہمیں غلامی کی ساری شرائط پوری کرنا پڑ رہی ہیں۔ 
وکلاء تنظیمیں ملک بھر میں ہر تحصیل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں موجود ہیں۔ یہ تنظیمیں ہمارے ملک کیلئے اللہ کی ایک نعمت ہیں۔ ملک بھر میں سے صرف یہی آئی پی پی ایس کے خلاف انقلابی مہم چلانے کی سکت رکھتی ہیں۔ انہیں اس سلسلہ میں باقاعدہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ چند افراد کو چھوڑ کر ان کا تعلق نچلے طبقوں سے ہے۔ پھر یہ سر پھرے نوجوانوں کی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ انہیں صرف یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ آ پ آزاد نہیں ہیں۔ آپ کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔یاد رہے!جب عوام اپنی گردن پر سوار ان خونی گروہوں کو نیچے پٹخ دیتے ہیں تو اسے انقلاب کہا جاتا ہے۔ لیکن جب ایسے مفاد پرست طبقے عوام کی گردن پر سوار ہوں اور نیچے اترنے سے انکار کریں تو یہ کیفیت ہماری نام نہاد جمہوریت ہوگی جو کہ غلامی کی ہی ایک جدید شکل ہے۔وما علینا الا البلاغ۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...