نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں صارفین پر 34 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 25 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ سہ ماہی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا جس کا اطلاق جون، جولائی اور اگست 3 ماہ کے لیے ہوگا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف حکومت عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کے اقدامات کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط کے تحت بجلی اور گیس کے نرخوں میں یہ سوچے بغیر آئے روز اضافے کی منظوری دیے جا رہی ہے کہ اب عوام میں یوٹیلٹی بلوں کا بوجھ اٹھانے کی بالکل سکت ختم ہو چکی ہے اور لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت ہی ازخود یا عملے کی ملی بھگت سے بجلی چوری جیسے غیرقانونی راستے اپنانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بدترین مہنگائی کے باعث ملک میں 70 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ غریب آدمی کے لیے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا محال ہو چکا ہے، ایسے میں ہزاروں روپے کا بل وہ کیسے ادا کر پائے گا، حکومت کو اس کا بالکل احساس نہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ہدایات جاری کیں کہ 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے غریب صارفین کے لیے بجلی مہنگی نہ کی جائے جبکہ صارفین کو سو سے دو سو یونٹ تک کا بل ہزاروں روپے تک بھیجا جا رہا جس کی ادائیگی ان کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سمیت دوسری ملٹی نیشنل کمپنیاں بے لگام نظر آتی ہیں جن کی بے لگامی کی سب سے بڑی وجہ ان کے ساتھ ڈیل کرنے والا کمیشن مافیا ہے جو ملکی مفاد کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ جب تک کمیشن مافیا کو قابو کرکے ان کمپنیوں کو لگام نہیں ڈالی جاتی ملک میں مہنگائی کا عفریت ہرسو اپنے پنجے گاڑتا رہے گا۔ شنید یہ بھی ہے کہ کچھ بجلی کمپنیاں مسلسل بند ہونے کے باوجود حکومت سے باقاعدگی سے اربوں روپے وصول کر رہی ہیں، اگر یہ حقیقت ہے تو ان کے خلاف کارروائی عمل میں کیوں نہیں لائی جا رہی؟ گزشتہ تین ماہ سے مسلسل تیل کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے مگر نیپرا کی جانب سے ہر دوسرے تیسرے روز فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے اس کے بے لگام ہونے کا ہی تاثر ابھرتا ہے۔ جب تک آئی پی پیز سمیت تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا نہ عام آدمی کی حالت سدھر پائے گی اور نہ معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔