کچھ یادیں … کچھ باتیں…( آخری قسط)

بعد میں پتہ چلا کہ ملک خضر حیات نے نظامی صاحب کو پیغام بھجوایا کہ میری مخالفت شوق سے کریں جتنا مرضی سخت لکھیں لیکن اگر اس کارٹون کے بغیر کام چل سکتا ہو تو اس سے نجات دلائیں مجھے اس کی بھی کوئی تکلیف نہیں۔ بلکہ محظوظ ہوتا ہوں مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اخبار میری والدہ کی نظروں سے بھی گزرتا ہے ان کو یہ کارٹون بڑا ناپسند ہے۔ ان کے نزدیک ان کا بیٹا بڑا خوبصورت ہے۔ اس کیری کیچر سے انہیں کوفت ہوتی ہے۔ حمید نظامی نے ایک ماں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہ سلسلہ بند کر دیا۔
مجید نظامی ان دنوں خوبصورت نوجوان تھے۔ مگر بڑے بھائی کی طرح وقت سے پہلے ہی خاصے سنجیدہ اور فطین تھے۔ حمید نظامی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اور ان سے انکو بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ مجید صاحب لندن چلے گئے جہاں حصول تعلیم کیساتھ وہ اخبار کیلئے مکتوب لندن بھی بھجوایا کرتے تھے۔ جو خاصے دلچسپ ہوتے۔ کبھی کبھی (لاحول پڑھ کر) انگریز قوم کے سکینڈل بھی بھجواتے جو چسکیدار ہوتے۔ ان دنوں ہمارے اخبارات اتنے رنگین نہیں تھے۔ آج تو اخبارات کسی تقریب میں شریک کسی اداکارہ ہی نہیں‘ کسی بھی خوبصورت خاتون کی تصویر بے دریغ چھاپ کر آنکھوں کی تراوت کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ اْس زمانے میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نوائے وقت تصویروں بالخصوص خواتین کی تصویروں سے بڑا ’الرجک‘ تھا۔
بی اے کرنے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں جرنلزم کلاس میں داخلہ لیا۔ عبدالسلام خورشید مرحوم نئے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مقرر ہوئے تھے۔ پروفیسر حضرات میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے لوئیس صاحب انگلش کے اور مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش اردو شعبہ کے انچارج تھے۔
مجھے یاد ہے۔ حمید نظامی صاحب نے کلاس کو خصوصی لیکچر دیا۔ انہوں نے جمہوری نظام کی اہمیت پر زور دیا۔ فرمانے لگے جس طرح آپ ایک دو سال کا بچہ دیکھیں اور پھر اسے دس سال بعد دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے۔ تو ظاہر ہے کہ اسکی شکل و صورت اور قدو قامت میں خاصا فرق آ چکا ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے ابتدائی دور میں نظام جمہوری تھا۔ جو بمشکل 30/32 سال قائم رہا اس کے بعد ملوکیت آ گئی ورنہ اگر اسی نظام کو جاری رہنے دیا جاتا تو ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اسکی ظاہری شکل و صورت میں یقیناً تبدیلیاں آتیں۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ آج کے جمہوری نظام سے ملتا جلتا نظام نہ ہوتا۔؟مرحوم ملائیت کے سخت خلاف تھے وہ اسلام کی روشن خیال تعبیر چاہتے تھے لیکن وہ سوشلزم کمیونزم اور بائیں بازو کے بھی مخالف تھے۔ مرحوم عالمی سیاست میں اشتراکی دھڑے سے اختلاف رکھتے تھے۔
لاء کالج میں داخلے کے بعد اخبار کو تو خیرباد کہنا پڑا مگر استاد محترم سے جو تعلق خاطر پیدا ہوا وہ عمر بھر قائم رہا۔ متعدد واقعات ہیں جن کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم ایک چھوٹا سا واقعہ پیش ہے۔
گجرات میں وکالت کیساتھ عملی سیاست بزعم خویش جاگیردار وڈیروں کیخلاف بھی مصروف جہاد تھے کہ ایک وڈیرے نے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے ایک مزارع کو پولیس سے پٹوایا۔ مسالہ کچھ زیادہ لگ گیا۔ جان کے لالے پڑ گئے۔ مسئلہ زیادہ نازک ہوگیا تو اسے اسی حالت میں ضلع سے باہر آزاد کشمیر میں لے جا کر کہیں چھپا دیا گیا کہ اگر اسے مرنا ہی ہے تو کہیں دور دفع ہو کر مرے۔ مزارع کے گھر والے سخت پریشانی کی حالت میں میرے پاس آئے۔ انہیں یقین تھا کہ اسے کہیں مروا دیا گیا ہے۔ وڈیرے کے مقابلے میں ان بے چاروں کی پسلی نہ تھی۔
مجھے کہانی سنائی مگر میرے پاس بھی کون سا اختیار تھا۔ مقامی پولیس بلکہ ساری انتظامیہ وڈیروں کی باندی تھی۔ اس پریشانی میں مجھے ایک خیال سوجھا میں نے ساری داستان لکھ کر جناب حمید نظامی کو بھجوا دی کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے‘ بندے کی جان بچانی ہے۔ نظامی صاحب نے وہ تفصیل اسی دن پنجاب پولیس کے مشہور و معروف سربراہ خان قربان علی خان کو بھجوا دی۔ تیسرے دن دو انسپکٹر تفتیش کیلئے موقع پر پہنچ گئے۔
جاگیردار حیران پریشان ہوگئے کہ غریب مسکین مزارع کی آہ اتنی جلدی آسمانوں تک کیسے پہنچ گئی۔ اس کی رسائی آئی جی پنجاب تک کیسے ہوگئی۔ مظلوم مزارع آزاد کشمیر کی دور دراز پہاڑیوں سے برآمد کرلیا گیا۔ بڑے لوگ اپنے اثرو رسوخ کے باعث سزا سے تو بچ گئے مگر آئندہ کیلئے سہم گئے۔

ای پیپر دی نیشن