اسلام آباد (وقائع نگار) میموگیٹ سیکنڈل میں منصور اعجاز پر درخواست گزاروں کی جرح مکمل کر لی گئی حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری کو پندرہ مارچ سے جرح شروع کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔ مزید کارروائی پندرہ مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔ حسین حقانی کو اسلام آباد میں اگلی کارروائی پر طلب کر لیا گیا حکومت پاکستان اور حسین حقانی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مارچ دو ہزار گیارہ سے بائیس نومبر دو ہزار گیارہ تک اپنے تمام ٹیلی فون بلز کمشن کو فراہم کئے جائیں۔ سیکرٹری کمشن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ جواد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لندن میں موجود فرانزک کمپنیوں سے رابطہ کر کے پوچھیں کہ کیا بلیک بیری میسجز اور ای میل اگر ختم کر دی گئی ہوں تو کیا ان کو دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس پر کتنا خرچہ آئے گا۔ کمشن کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے غریب قوم کا پیسہ زیادہ خرچ نہ ہو اور کم سے کم اخراجات ہوں۔ لندن میں ان کمپنیوں کے بارے میں دیگر معلومات حاصل کی جائیں کہ ان کا اس فیلڈ میں کتنا تجربہ ہے، یہ ساری معلومات حاصل کی جائیں۔ اس کے علاوہ اگر درخواست گذاروں یا پھر منصور اعجاز اگر کسی اور کمپنی کے بارے میں بتانا چاہیں تو وہ نو روز میں اپنے وکلا کے ذریعے کمشن کے سیکرٹری کو آگاہ کریں۔ کمشن نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ فرانزک کمپنیوں سے یہ بھی معلوم کیا جائے کہ آیا وہ یہ بتا سکتی ہیں کہ ای میل یا میسجز کو ٹمپرڈ تو نہیں کیا گیا ہے۔کمشن نے مزید ہدایت کی کہ منصور اعجاز اور حسین حقانی کے درمیان ہونے والی بلیک بیری سے گفتگو اور بلیک بیری کے پن نمبر بھی فراہم کئے جائیں اگر حسین حقانی نمبر نہیں دیتے تو ایسی صورتحال میں ان بیوی بچوں سے پن نمبرز کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے۔ اس پر حسین حقانی کے وکیل ساجد تنولی نے اعتراض کیا اور کہا کہ حسین حقانی کے بیوی بچوں کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کے آرڈر سے کل کے اخبارات میں ہیڈ لائن بن جائے گی اس کو ختم کیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم تو صرف ایک رائے دے رہے ہیں اگر حسین حقانی کے سیٹ نہیں ملتے ہیں تو پھر ایسی صورت میں ان کی بیوی کے اس کے فون کے پن نمبر کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ کمشن نے حسین حقانی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیان منصور اعجاز پر ان کے وکیل کی جرح مکمل ہونے کے بعد ہو گا ان کی پیشی کی تاریخ کا انحصار سیکرٹری کی فراہمی اور کمشن کی جانب سے مناسب سہولت کے بعد دی جائے گی اور کمشن حسین حقانی کا بیان یا ان پر جرح اسلام آباد میں کرے گا۔ کمشن نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ اگر حسین حقانی سرکاری فون سیٹ بلیک بیری یا ٹیلی فون استعمال کر رہے تھے جب وہ امریکہ میں سفیر تھے ان کے فون بل پیش کئے جائیں اگر حکومت کے پاس نہیں ہیں تو پھر حسین حقانی خود پیش کریں۔ تین مئی سے بائیس نومبر دو ہزار گیارہ حسین حقانی جو نمبر استعمال کر رہے تھے یا جو وہ سروس استعمال کر رہے تھے ان کے بل فراہم کئے جائیں یا اگر بل گم ہو گئے ہیں یا مل رہے ہیں تو پھر متعلقہ کمپنی سے ڈپلیکیٹ بل حاصل کئے جائیں۔ حسین حقانی اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی جاتی ہے کہ بل کی پی ڈی ایف یا ہارڈ کاپی سیکرٹری کمشن اور ہارڈ کاپی کمشن کو ارسال کی جائے۔ کمشن نے خصوصی طور پر ہدایت کی کہ حسین حقانی کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھا جائے جس طرح منصور اعجاز نے اہم نمبر پر سیاہی لگائی ہے اور ان چھپایا ہے حسین حقانی کو بھی یہ حق دیا جاتا ہے۔ کمشن اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ ان کے نمبر کسی اور شخص کو نہیں دئیے جائیں گے۔ جمعہ کا اجلاس جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچستان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا، ان کے ہمراہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن موجود تھے۔ ابتدا میں فنی خرابی کے باعث ویڈیو کانفرنس کی کارروائی تعطل کا شکار ہوئی۔ بعدازاں ثناءاللہ زہری اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے کونسل صلاح الدےن مےنگل نے منصور اعجاز پر جرح مکمل کر لی۔ دوران جرح منصور اعجاز نے کمشن کو بتاےا کہ میرے اور حسین حقانی کے درمیان میمو کے معاملے پر جن پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے انہیں اس صورت میں کمپنی ختم کر سکتی ہے جب امریکہ یا کوئی اور ملک سکیورٹی کی بنیاد پر انہیں ختم کرنے کی درخواست کرے۔ انہوں نے کمشن کو بتایا کہ ان کے امرےکی نےشنل سکےورٹی کے سابق عہدےدار جنرل (ر) جےمز جونز کے ساتھ 2006ءسے دوستانہ تعلقات ہےں۔ ان کے جنرل جیمز کے ساتھ سو پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے تاہم مےمو کے حوالے سے جنرل جےمز نے انہےں 14 نومبر 2011ءکو ٹےلی فون کےا اور کہا کہ مےں مےمو کے مندرجات ظاہر نہ کروں کےونکہ انہےں اس بات کا علم تھا کہ ےہ مندرجات ظاہر ہونے کے بعد وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے۔ جرح کے دوران منصور اعجاز نے جنرل جےمز اور ان کے درمےان صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے ہونے والی گفتگو ظاہرکرنے سے معذرت کر لی۔ مصطفی رمدے اےڈووکےٹ کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال پر کہ کےا انہےں ےہ علم ہے کہ اےبٹ آباد مےں اسامہ بن لادن کے خلاف امرےکی آپرےشن کے حوالے سے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور آرمی چیف کو علم تھا اس پر منصور اعجاز نے کہا کہ وہ اس سوال کا جواب نہےں دے سکتے۔ مصطفی رمدے نے منصور اعجاز سے استفسار کےا کہ کےا آپ نے کسی اور بھی ٹےلی فون سے حسےن حقانی سے رابطہ قائم کےا تھا۔ منصور اعجاز سے پوچھا گےا کہ کےا انہےں ےہ علم ہے کہ مےمو کے بعد صدر بارک اوباما ےا اےڈمرل مائےک مولن نے پاکستان آرمی چےف جنرل اشفاق پروےز کےانی کو ٹےلی فون کےا تو اس پر منصور اعجاز نے کہا ہے انہےں اس بات کا علم نہےں ہے۔ منصور اعجاز نے ایک سوال پر کہا کہ انہوں نے میمونڈم کی تیاری میں کسی قسم کے کوئی پیسے یا کوئی فائدہ نہیں لیا ہے۔ منصور اعجاز نے کہا کہ اکیس اکتوبر کو جنرل شجاع پاشا سے نہیں ملا تھا مگر اس سے رابطہ کیا تھا اور یہ رابطہ ای میل سے ہوا تھا کچھ ای میلز اور ان سے رابطہ کو خفیہ رکھنا چاہتا ہوں اس کا میمو سے کوئی تعلق نہیں تھا میرے پاکستان کے دورے پر سکیورٹی معاملات پر یہ میلز کی تھیں۔ جیمز جونز نے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بننے کے بعد تعلقات محدود کر لئے تھے۔ جیمز جونز نے چودہ نومبر دو ہزار گیارہ کو فون کر کے کہا کہ میمو کے مندرجات ظاہر نہ کرو شاید جیمز جونز کو اندازہ نہ تھا کہ مندرجات سامنے آئے تو وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے۔ صدر زرداری سے متعلق جیمز جونز سے گفتگو کے سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ فنی خرابی کی وجہ سے ایک گھنٹہ تک میمو کمشن کی کارروائی رکی رہی۔ مزید کارروائی پندرہ مارچ دن دو بجے تک ملتوی کر دی گئی اور حسین حقانی کو خاص طور پر ہدایت کی گئی کہ وہ پندرہ مارچ کے بعد سے ملک میں موجود رہیں اور یہ بہانہ نہ بنایا جائے کہ ان کو فلائٹ نہیں ملی ہے، کمشن مناسب وقت پر انہیں طلب کر سکتا ہے۔ میمو کمشن کے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے منصور اعجاز نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کو ایبٹ آباد واقعہ کا علم تھا اور انہوں نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون کر کے کہا کہ ایبٹ آباد آپریشن جس میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئی کی اجازت میں نے دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ہیلی کاپٹر آئے تو جوابی کارروائی کے لئے ایف سولہ تیار کھڑے تھے لیکن صدر زرداری نے آرمی چیف کو فون کر کے انہیں جوابی کارروائی سے منع کیا۔